مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مال کے بعد دانش کا احتساب کب ہوگا؟ محمود جان بابر

ہرسال سڑکوں کے لئے تعلیم اورصحت سے زیادہ فنڈ رکھے جاتے ہیں ۔ 356چھوٹے ڈیموں میں سے کتنے بن چکے ہیں؟

اپوزیشن کو ٹھکانے لگانے کے بعد نیب چیئرمین تحریک انصاف کی حکومت میں رونما ہونے والے دو بڑے مبینہ کرپشن سکینڈلزمالم جبہ اوربی آرٹی کے لئے اپنی تیاریوں کا اشارہ دے چکے ہیں جس کے بعد ہرجانب ایک غلغلہ ہے کہ آج نہیں تو کل خیبرپختونخوا میں موجودہ اورسابقہ حکومتوں کے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ذمے داران پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے ۔

ان دوکیسز کے علاوہ تنگی کرومائٹ کا سکینڈل بھی خبروں میں ہے ۔ لوگ پریشان ہیں کہ مالم جبہ اراضی سکینڈل کے تحت تحریک انصاف کے سابق اورموجودہ حکومتی عہدیداروں کا مستقبل خطرے میں ہے ۔

بی آرٹی میں بھی ایسے ہی کردارہیں جن پرالزام ہے کہ انہوں نے اس منصوبے میں اربوں روپے کا ہیر پھیر کیا ہے لیکن یہ تو تحقیقات میں پتہ چلے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔ تنگی کرومائٹ کا کیس بھی لگ بھگ ایسا ہی ہے ۔

حیرت کا مقام ہے کہ جب خود حکومت کے ’’اپنے‘‘ گھیرے میں آرہے ہیں لیکن دوسری جانب وہ احتساب کی نئی لہر کا خیرمقدم بھی کررہے ہیں ۔

ان تینوں بڑے اسکینڈلز میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کے داغوں کے کھرے انتہائی ذمے دارلوگوں تک جارہے ہیں لیکن ان کے علاوہ کچھ داغ ایسے بھی ہیں جن میں مالی سے زیادہ عقل ودانش کے میدان میں کرپشن ہوئی ہے ، عوام کے پیسوں کے بن سوچے سمجھے بے دریغ اوربلاجواز استعمال کی یہ سب سے بڑی مثال بی آرٹی نامی منصوبے میں سامنے آئی ہے کہ اگر اتنی بڑی رقم سے اس شہرپشاور کو پوری طرح مٹاکر دوبارہ بھی بنایا جاتا تو ایسا ممکن تھا ۔

دوسری طرف حکومتی عہدیداراپنی کارکردگی کو جس طرح بیان کرتے ہیں ایسے میں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کو کسی کی نظر لگ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی کام کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ کرنہیں دے رہا ۔

اب یہی کیا کم ہے کہ کسی بھی دووزیروں کا قبلہ اورسمت ایک نہیں لگ رہی ایسا لگتاہے کہ سب اپنے اپنے طریقے سے ہی قوم کی خدمت اورپارٹی کا نام روشن کرنے کے لئے کوشاں ہیں اس لئے ان کی اس جدوجہد میں پارٹی کی اجتماعی دانش اورسمجھ بوجھ کہیں کھو گئی ہے ۔

ایسا لگ رہا ہے کہ ہروزیرباتدبیرڈیلیور کرنے کی بجائے اپنی وزارت بچانے کے چکر میں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ پورے صوبے میں پارٹی کا کوئی ایک فیس یا چہرہ ہی نہیں بلکہ پورا چہرہ ٹکڑوں میں بکھرا نظرآرہا ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔

اس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کو ساتواں سال چل رہا ہے لیکن اب بھی ماضی کی غلطیاں ٹھیک کرنے کا ہی راگ الاپا جارہا ہے حالانکہ اگرکوئی صرف اتنا ہی پوچھ لے کہ بھئی آخری پچھلی حکومت تو آپ کی اپنی تھی اب کس بات کی صفائیاورکہاں کے شکوے ۔

ہمیں معلوم ہے کہ تحریک انصاف کے ماند پڑتے کارکنوں کو اب بھی ہماری بات بری لگے گی لیکن اب تو ان کے پاس بھی بہت ساری باتوں کا جواب نہیں وہ خود بھی اپنی نجی اورسرکاری محفلوں دونوں میں اس بات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں کہ جو تعلیم ان کی ترجیح اول تھی وہ تو ٹریک سے ایسی ڈی ٹریک ہوئی کہ واپس ٹریک پرچڑھ کے ہی نہیں دے رہی ۔

صوبے کی پچیس یونیورسٹیاں مالی بحرانوں کا شکار ہیں اورمراعات تو چھوڑیں لوگ ماہانہ تنخواہوں تک کے لئے احتجاج کرنے پرمجبورہیں ابتدائی تعلیم کی طرف آئیں تو حکومت نے حال ہی میں مڈل کے امتحانات کا بورڈ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس نے ایک بارپھر بھرے بازار میں حکومت کی دوراندیشی،حکمت اوردانش کوبے نقاب کردیا ہے ۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکومت کو احتساب کرنا آتا ہے اورنہ ہی وہ اس میں اب تک کامیاب ہوسکی ہے اس کے باوجود بھی احتساب کا ایک نیا دور شروع کیا جارہا ہے حکومت کو اگر یہ کام آتا تو وہ اپنے ہی بنائے ہوئے احتساب کمیشن کو ختم کرنے پرکیوں مجبورہوتی؟

عام انتخابات میں حکومت نے اپنے بلدیاتی نظام کے سب سے بہتر ہونے کا دعوی کیالیکن دوبارہ حکومت بنتے ہی اسی نظام کو اصلاحات کے نام پربدل دیا گیا ۔

تاریخی عجائب گھرگورنرہاوس کودوبارہ عجائب گھر بننے اوراس عمارت کو ہفتے میں ایک دو دن عام پبلک کے لئے کھولنے کا اعلان تو ہوا لیکن پھر وہ بھی جاری نہ رکھا جاسکا ۔ اب کوئی کس سے پوچھے کہ گورنرہاوس پر ایسا کون قابض ہوچکا ہے جو یہ کام نہیں ہونے دے رہا۔ 

وزیراعظم نے خود قلعہ بالاحصارکوسیاحت کا مرکز بنانے کا اعلان کیا اورایف سی کو حیات آباد بھیجنے کا حکم ہوا لیکن اس کے بعد اس پرعمل نہ ہوسکا ۔

پنجاب میں جنگلہ بس کی مخالفت کرتے کرتے اپنے ہاں سب سے مہنگا بی آرٹی بنانے پرمصر رہی، پہلے کہا قوم سڑکوں سے نہیں بنتی اب سوات ایکسپریس وے کا دوسرا مرحلہ اورپشاورڈیرہ اسماعیل خان موٹروے بھی بن رہا ہے ۔

ہرسال سڑکوں کے لئے تعلیم اورصحت سے زیادہ فنڈ رکھے جاتے ہیں ۔ 356چھوٹے ڈیموں میں سے کتنے بن چکے ہیں کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ اعلان ہونے کے باوجود کابینہ میں جب شادی کے لئے اٹھارہ سال کی عمرکی حد مقررکرنے کا وقت آیا تو کون پیچھے ہٹا اوریوں یہ اہم قانون نہ بن سکا ۔ وہ درختوں کے منصوبے بلین ٹری سونامی کا بھی کسی کو یاد نہیں کہ اب اس کی کیا حالت ہے جس پر اسمبلی میں پارلیمانی کمیٹی بھی بن چکی لیکن کام آگے نہیں بڑھ کے دے رہا ۔

تحریک انصاف نے دوبارقومی وطن پارٹی کو ساتھ ملایااورخود ہی حکومت سے نکال دیا ۔

کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو کسی حتمی حل پرختم ہوا ہواوراب تو کچھ عرصے سے صوبائی حکومت نے ہر مینول مسئلے کے حل کے لئے ڈیجیٹل ایپ تیار کرنے شروع کئے ہیں اب ہم کس سے پوچھیں کہ ایپ کے پیچھے بھی دانش انہی کی ہوگی تو ہم ان سے کیا توقع رکھیں؟

%d bloggers like this: