نومبر 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پرآج کی سماعت کا احوال

منیر اے ملک نے کہا کہ ریفرنس کا علم صدر، وزیراعظم، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور چیف جسٹس کے سیکریٹری کو تھا

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے فیض آباد دھرنا کیس میں نظر ثانی کی درخواستیں دائر کیں،پی ٹی آئی کی نظر ثانی کی درخواست ان کی ذہنی سوچ کی عکاس ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ جج کی برطرفی کے لیے واضح جواز ہے۔

جسٹس فائز عیسی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہاریفرنس میں کہنا کہ جسٹس قاضی جج رہنے  کے اہل نہیں، یہ اتفاق نہیں ہے،4 بجے ریفرنس کے حوالے سے ٹویٹ جاری ہوئی۔

منیر اے ملک نے کہا کہ ریفرنس کا علم صدر، وزیراعظم، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور چیف جسٹس کے سیکریٹری کو تھا،چیف جسٹس کے سیکریٹری نے خبر لیک نہیں کی۔ اس لئے اس کی ذمہ داری باقی چار افراد پر ہے۔

جسٹس فائز کے وکیل نے کہا صدر نے صرف اس حد تک کہا ہے کہ خبر ان کے دفتر سے لیک نہیں ہوئی، ایک حکومتی رکن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عدلیہ نے کریز سے نکل کر شاٹ کھیلی اور اب وہ احتساب کے شکنجے میں ہے۔

منیر اے ملک نے مزید کہا شاٹ کریز سے باہر ہونے کا مطلب فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے علاوہ کچھ نہیں،اٹارنی جنرل کا ریاست میں کردار واضح ہے، اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کرتا ہے حکومت کی معاونت نہیں۔

جسٹس فائز عیسی کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا اٹارنی جنرل نے جواب الجواب میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی ذاتی تعریف اور سستی شہرت پر یقین رکھتے ہیں،یہ الزامات سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں بدنیتی کا اظہار ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی نے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ اٹارنی جنرل کے جواب الجواب میں جسٹس قاضی پر بیوی اور بچوں کی شناخت کے پیچھے چھپنے کا الزام بھی ہے۔

جسٹس فائز عیسی کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ کونسل اٹارنی جنرل یا کسی بھی وکیل کو معاونت کے لیے مقرر کر سکتی ہے،اٹارنی جنرل کا یہ جواب خفیہ قوانین کی خلاف ورزی اور جج کی جاسوسی سے متعلق میرے دلائل کی تصدیق ہے۔

منیر اے ملک نے کہایہ جواب 5 حکومتی افسران نے ایک ہی روز میں تیار کیا ہے،حکومت کو ایک ہی روز میں 5 مختلف ذرائع سے رپورٹ موصول ہونا اچانک نہیں سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔

منیر اے ملک نے ریفرنس خارج کیے جانے کے حوالے سے اپنے بنیادی دلائل بھی دہرائے ۔

منیر اے ملک نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بیرون ملک جائیدادوں کی بے نامی ملکیت، بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کا الزام نہیں لگایا گیا۔

جسٹس قاضی کے وکیل نے کہا ایسیٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین اور وزیر قانون کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے جج کے خلاف تحقیقات کرے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں ریاستی جاسوسی کے ذریعے مواد اکٹھا کیا گیا۔

منیر اے ملک نے کہا ہم ایک طرف یہ چاہتے ہیں کہ تمام ادارے قانون کے مطابق کام کریں ،دوسری جانب یہ بھی چاہتے ہیں غیر قانونی کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو۔

جسٹس قاضی کے وکیل نے کہا احتساب اور قانون کی خلاف ورزی کرکے مواد جمع کرنے میں توازن ہونا چاہیے،غیر قانونی اقدام کی اجازت دینے سے ایگزیکٹیو کو یہ لائسنس مل جائے گا کہ وہ عدلیہ کو بلیک میل کرے۔

منیر اے ملک نے کہااعلیٰ عدالتوں کی ایسی کئی مثالیں موجود ہے جن میں غیر قانونی طریقے سے اکٹھے کیے گئے مواد کو الگ کیا گیا،پوری دنیا کے سمندر بھی جج پر عائد الزام کو نہیں دھو سکتے۔

یہ بھی پڑھیے: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی درخواست پر سماعت کا احوال

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ جج کے خلاف ریفرنس خارج کر دینے سے کیا یا الزام ختم ہو جائے گا؟

منیر اے ملک نے جواب دیا کہ  الزام نہ بھی ختم ہو لیکن داغ مٹ جائے گا۔ الزام ختم کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ جج کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا جائے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا افتخار چوہدری کیس میں اس وقت ایک فوجی آمر کی حکومت تھی، اس کیس میں ججوں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا اور چیف جسٹس کو عدالت سے باہر پھینک دیا گیا۔ افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس دونوں الگ الگ ہیں۔

منیر اے ملک نےسوال اٹھایا کیا کورٹ کے جج کی جاسوسی کرنا کوئی معمولی بات ہے؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ نے بہت کچھ کہہ دیا ہے ہمیں سوچنا پڑے گا۔

منیر اے ملک نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ انہیں طبی بنیاد پر بدھ کو چھٹی چاہیے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اس دوران ہم ہم دیگر وکلاء کو سن لیتے ہیں۔ ہم چھٹیوں پر نہیں جا رہے ۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔

About The Author