سرینگر:کز کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ میں مختلف نسلوں اور قبائل کے لوگ رہتے ہیں، جن میں سب سے بڑی آبادی گجر اور بکروال قبیلہ کی ہے۔ عام طور پر اونچے پہاڑوں، جنگلاتی علاقوں اور چراگاہوں میں رہنے والی یہ آبادی، سخت جاں ہے اور ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔
حکومتیں انکی فلاح و بہبود کا تذکرہ تو کرتی ہیں لیکن عملی طور اس پسماندہ آبادی کی زبوں حالی کی تصویر بدلتی نظر نہیں آتی۔
جموں و کشمیر اور لداخ میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302 ہے، اس میں سے قبائلی لوگوں کی آبادی 11 اعشاریہ 9 فیصد یعنی 14 لاکھ 93 ہزار 299 ہے۔پورے بھارت میں 702 قبیلے موجود ہیں۔
تقریبا سبھی قبائل کا ماننا ہے کہ ان کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی حفاظت نیز ان کی مشکلات اور پریشانیوں کا حل نکالنے میں حکومتیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق جموں و کشمیر میں کل 12 قبائل آباد ہیں، جن میں گجر، بکروال، بلتی، بیڈا، بوٹو، بروکپا، چنگپا، گررہ، مون، پورگپا، گدی اور سیپی شامل ہیں۔ ان سب قبیلوں میں گجر بکروال قبیلہ جموں وکشمیر میں سب سے بڑا قبیلہ ہے۔
کشمیر میں 12 قبائل آباد ہیںاورپورے بھارت میں 702 قبیلے موجود ہیں۔ تقریبا سبھی قبائل کا ماننا ہے کہ ان کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی حفاظت نیز ان کی مشکلات اور پریشانیوں کا حل نکالنے میں حکومتیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ گجر و بکروال قبیلہ تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔موجودہ وقت میں جموں و کشمیر میں کل شرح خواندگی 71 فیصد ہے، گجروں کا لیٹریسی ریٹ محض 32 فیصد اور بکروال کا لیٹریسی ریٹ 23 فیصد ہے۔اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کے میدان میں یہ قبیلہ بہت پیچھے ہے۔
ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق قبیلے کو تعلیمی میدان میں آگے لے جانے کے لیے 1970 میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیر اعلی شیخ محمد عبداللہ کی طرف سے 263 موبائل اسکولوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ان موبائل اسکولز کا مقصد تھا کے گجر و بکرال کا وہ طبقہ جو اپنے مال مویشی کے ساتھ موسمی ہجرت کرتا ہے ان کو تعلیم فراہم کروائی جائے، اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ موبائل اسکولز اس قبیلہ کے ساتھ رہیں گے، اور قبیلہ کے بچوں کو تعلیم دیں گے۔
اس دوران 263 موبائل اسکولز میں سے 175 موبائل اسکولز شروع کئے گئے۔ پھر بعد میں کچھ اسکولز کو بند کر کے ریگولر اسکولز میں تبدیل کر دیا گیا، اور باقی 88 موبائل اسکولز رہ گئے۔آج یہ 88 موبائل اسکولز کاغذی ریکارڈ پر تو ہیں لیکن زمینی سطح پر کہیں نظر نہیں آرہے ہیں، قبیلہ میں تعلیم کو اور بڑھاوا دینے کے لیے 2011 میں جموں و کشمیر حکومت نے 100 دیگر موبائل اسکولز کا اعلان کیا، جو ابھی تک شروع نہیں کیے گئے ہیں۔
ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق جموں یونیورسٹی کی شعبہ لائف لرنینگ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کویتہ سوری کے مطابق فی الوقت جموں و کشمیر کے سبھی اضلاع میں سے صرف راجوری ضلع میں بعض موبائل اسکولز کام کررہے ہیں۔
گجر بکروال قبیلہ کی تاریخ پر ایک نظر
گجر بکروال قبیلے کی ابتدا تاریخ داں وی اے سمتھ کی کتاب ‘ہندوستان کی ابتدائی تاریخ’ کے مطابق 465 قبل مسیح میں ہوئی۔ ان کی اس کتاب میں راجستھان میں گجر مملکت کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ‘جیوگرافی آف جموں و کشمیر’ کے مصنف اے این رینہ لکھتے ہیں کہ ‘گوجر جارجیہ کے باشندے تھے۔
جس کے بعد وہ وسطی ایشیا، عراق، ایران، اور افغانستان کے راستے برصغیر ہند و پاک پہنچے۔ گجروں کے نام سے ہی آج کا گجرات جانا جاتا ہے۔ گجر اسکالر ڈاکٹر جاوید راہی نے اس قبیلے کی جینیاتی اساس وسطی ایشیا میں تلاش کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ گوجر اصل میں ترکی النسل ہیں۔
متعدد گجر مورخین کا ماننا ہے کہ گجر سن ڈائنسٹی سے منسلک تھے اور ہندو بھگوان رام کے پیروکار تھے جن کی اکثریت بعد میں مشرف بہ اسلام ہوئی۔
ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق بھارت میں گجروں کی آباد ی جموں و کشمیر کے دونوں منقسم خطوں کے علاوہ دہلی، اترپردیش، پنجاب، راجستھان، گجرات، ہماچل پردیش، بہار اور ہریانہ میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں بھی گجر بستے ہیں۔ گجر قبائل سے وابستہ لوگ مسلمان، ہندو، اور سِکھ مذاہب کے پیروکار ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق گجر قبیلہ کی کل آبادی 980654 ہے جبکہ بکروالوں کی آبادی 113198 ہے۔ گجر اور بکروال طبقہ کو 1991 میں انڈین شیڈول ٹرائب کے اندر لایا گیا۔ گجر بکروال طبقے کی معیشت مال مویشی، بھیڑ بکریاں، کھیتی باڑی اور دودھ بیچنے پر منحصر ہے۔
یہ طبقہ 12 مہینے خانہ بدوشی کی وجہ سے 6 ماہ کشمیر میں اور چھ مہینے جموں میں گزارتا ہے۔ بکروال اور گوجر طبقوں میں بعض بنیادی تبدیلیاں انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں۔ ایک نیوز ویب سائٹ القمرآن لائن کے مطابق بکروال مجموعی طور پر خانہ بدوش ہوتے ہیں اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، "بکروال” میں ‘بکر’ کا معنی بکرا ہے اور ‘وال’ کا مطلب رکھوالا، بکروال بھیڑ بکریوں کے رکھوالے ہوتے ہیں۔
بکروال برادری مذہب اسلام سے تعلق رکھتی ہے، اور بکروالوں کی آبادی جموں و کشمیر کے علاوہ بھارت، پاکستان اور افغانستان کے متعدد علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔قبیلہ کی تہزیب و تمدن اور ثقافت پر ایک نظر تہذیب و تمدن اور ثقافت کے اعتبار سے یہ قبیلہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔
اس قبیلہ میں خواتین شلوار قمیض اور سر پر گوجری ٹوپی کے ساتھ منفرد طرح کے زیورات پہنتی ہیں۔ اور مرد شلوار قمیض کے ساتھ گوجری پگڑی پہنتے ہیں۔ گجر مرد اپنی خوبصورت لمبی داڑھی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ گوجری زبان اردو رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ خوبصورت گیت اور بیت اس زبان کی منفرد پہچان ہیں۔
ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق ریاست جموں وکشمیر میں تخلیق ہونے والا گوجری ادب مقامی لہجوں کا مرکزی روپ ہے گوجری زبان کا اپنا ایک حلقہ ہے ،اپنا ایک ادب ہے، اپنے خالص الفاظ کا ذخیرہ ہے اور اپنی ایک الگ پہچان ہے یہ کہہ دینا کہ گوجری پنجاب یا کسی دوسری زبان کی ذیلی بولی ہے قطعا درست نہیں بلکہ گوجری زبان کی اپنی ذیلی شاخیں ہیں۔
گوجری زبان میں محاورے، ضرب المثل، پہلیاں، لوک گیت، لوک کہانیاں اور لوک بار غیر ہ وہ سب مواد موجود ہے جس کے بل بوتے پر اس کو زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے گوجری اپنی قدامت اور وسعت کے لحاظ سے برصغیر کی اہم زبان ہے شروع شروع میں گجرات(بھارت)اور دکن میں اس کو اردو کا نام دیا گیا کیونکہ دراصل اس زبان کے خدوخال سے ہی بعد میں اردو نے نشو و نما پائی چوہدری اشرف گوجر ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب اردو کی خالق، گوجری زبان میں بڑے خوبصورت طریقے سے یہ بات ثابت کی ہے۔
گوجری فوک میں نغمے، بلاڈ اور فولک کہانیاں جنہیں داستان کہا جاتا ہے بہت دستیاب ہیں۔ گوجری زبان کے سیکڑوں گانوں میں نوروو، تاجو، نئرا، بیگوما، شوپیا، کونجھڑی اور ماریاں مشہورہیں۔
گوجری زبان میں اب لکھنے کا رواج بھی عام ہوچلا ہے۔ مشہور لکھاریوں میں سین قادر بخش، نون پونچی اور دیگر شامل ہیں۔ دوسرے لکھاریوں میں میاں نظام الدین، خدا بخش، زابائی راجوری، شمس الدین مہجور پونچی، میاں بشیر احمد، جاوید راہی، رفیق انجم، ملکی رام کوشن، سروری کاسانا، نسیم پونچی اورموجودہ دور میں منیر احمد زاہدجیسے لوگوں نے نام کمایا ہے اور اپنی شاعری، نثر اور تنقیدوں کے ذریعے گوجری زبان کی خدمت کی ہے۔
قبیلہ کی تہذیب و تمدن اور ثقافت آج پورے بھارت میں جہاں لوگ ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، وہیں گجر بکروال قبیلہ اپنے بنیادی مسائل کے لیے پریشان ہے۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
حکایت :مولوی لطف علی۔۔۔||رفعت عباس
حکایت: رِگ ویدوں باہر۔۔۔||رفعت عباس