(سرائیکی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین راشد عزیز بھٹہ کے غیر منطقی خط کا منطقی جواب)
جناب محترم راشد عزیز بھٹہ صاحب،
آداب!
سوشل میڈیا سائیٹ “ڈیلی سویل” پر 12 دسمبر 2019 کو ایک مضمون، “سردار اختر مینگل کے نام سرائیکی ایکشن کمیٹی پاکستان کے مرکزی چیئرمین راشد عزیز بھٹہ کا کھلا خط” پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس مضمون، جس کا نام کھلا خط ہے میں بغیر دلیل، منطق اور سیاسی تحمل کے پہلی سطر میں ہی اختر مینگل صاحب کے سر سازش کے نام پر بذات خود ایک بدترین بہتان باندھا گیا ہے، جس سے آپ کی سیاسی بصیرت کا بخوبی اندازا ہوتا ہے۔ جناب نے صرف سطحی جذباتیت اور بے ترتیب لفاظی سے یہ ثابت کیا ہے کہ نفرت پھیلانے کے لیے فراست سے عاری آپ جیسے جذباتی دوست باقاعدہ سیل لگا کر گھوم رہے ہیں۔
جناب محترم! آپ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ اختر جان مینگل واحد بلوچ سیاسی قائد نہیں جو ڈی جی خان اور راجن پور کی بلوچستان میں شمولیت کا مطالبہ کر رہے ہیں، بلکہ اس مطالبے کی باقاعدہ تاریخ ہے۔ ماضی میں اکبر خان بگٹی، خیر بخش مری، عطااللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو سمیت دیگر بلوچ اکابرین یہ مطالبہ دہراتے رہے ہیں، اور اب حال میں ڈاکٹر مالک بلوچ، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، حاصل خان بزنجو اور اختر جان مینگل سمیت موجودہ عہد کے تمام بلوچ قائدین اور تمام نظریاتی سیاسی کارکن اس مطالبے کو دہرا رہے ہیں۔
جناب یہ کوئی سازش نہیں بلکہ اپنی شناخت کا قومی سوال ہے جس پر کوئی بھی باشعور بلوچ سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ ڈی جی خان، راجن پور اور جیکب آباد تاریخی طور پر بلوچستان کے حصے رہے ہیں اور ایک باقاعدہ سازش کے تحت بلوچ قوم کی تقسیم کی غرض سے ان کو مختلف صوبائی اکائیوں میں انگریز بہادر نے بانٹ دیا اور پاکستان بننے کے بعد بھی اسی تقسیم کے طفیل استحصالی طاقتیں بلوچ قوم کے حقوق غصب کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور آپ جیسے دوست ان کو جانے انجانے میں بھرپور کمک بہم پہنچا رہے ہیں۔ لیکن بلوچ قوم کا بچہ بچہ اپنی قومی شناخت کا ادراک رکھتا ہے جس کی وجہ سے تمام سامراجی طاقتوں کو بلوچ قوم کی مکمل شناخت تسلیم کر کے، تمام بلوچ علاقوں کو بلوچستان میں شامل کرنا ہو گا۔
اس کے علاوہ اگر جناب تھوڑی سی سیاسی بصیرت رکھتے ہوں تو آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ پنجاب کی آبادی اس وقت تقریباً گیارہ کروڑ کے لگ بھگ ہے، اور اٹھارویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والا حصہ بھی اسی مناسبت سے ملتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں ایک بیلنسڈ فارمولا نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کی اکثریت ہے، جس کی وجہ سے پنجاب کے اراکین اپنے صوبے کے لیے قانون سازی میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ بیوروکریسی سمیت طاقت کے جتنے بھی مراکز ہیں وہاں پنجاب کے عوام کی مناپلی ہے۔ اس وجہ سے دیگر تمام صوبائی اکائیوں میں احساسِ محرومی حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس حوالے سے نیپ کی مثال دی جا سکتی ہے جس نے تین صوبوں میں اکثریت حاصل کی لیکن اس کے باوجود مرکز میں سادہ اکثریت لینے میں ناکام رہی۔ اس وجہ سے پنجاب کے تمام متنازع قومی مسائل کا حل تمام متنازع علاقوں کی اصل تاریخی حالت میں بحالی ہے۔
اس تمام تر تناظر میں قومی بنیادوں پر صوبوں کی ازسر نو تشکیل ایک مضبوط فیڈریشن کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک نئے عمرانی معاہدے کے ساتھ ساتھ صوبائی اکائیوں کی ازسرنو تشکیل قومی، ثقاقتی اور تاریخی بنیادوں پر کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے پنجاب کے اندر ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے بلوچ اپنی تاریخی، خغرافیائی اور قومی شناخت کے حوالے سے بلوچستان میں شمولیت کا مطالبہ دَہائیوں سے دُہرا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب کے بلوچ اضلاع کو بلوچستان میں شامل کیا جائے۔ بہاول پور کے عوام اگر تاریخی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ ان کا بھی حق ہے، اور باقی جتنے سرائیکی اضلاع ہیں ان پر سرائیکی صوبہ ہر صورت بننا چاہیے۔ ہم سرائیکی صوبے کے قیام کے حوالے سے ہر فورم پر سرائیکی بھائیوں کے ساتھ رہے ہیں۔ میر غوث بخش بزنجو کا سرائیکی شعور اجاگر کرنے کے لیے کردار اس حوالے سے انتہائی نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر حئی بلوچ صاحب بھی سرائیکی صوبے کے حوالے سے واضح مؤقف رکھتے ہیں۔
جناب! جب پونم کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس میں بھی دونوں اقوام کے صاحبِ فراست اکابرین نے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیا۔ جتنی بھی یونیورسٹیز ہیں ان میں بھی بلوچ اور سرائیکی طلبا ایک دوسرے کے ساتھ ذہنی و فکری ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی کہ زمینی حالات و واقعات کے برعکس آپ نے صرف سطحی جذباتیت اور تعصب کے ذریعے اس عظیم تر اتحاد کو سبوثاز کرنے کی ناقابل معافی کوشش کیوں کی ہے۔
اختر جان مینگل کا حالیہ دورہ ڈی جی خان اور تونسہ بلوچ قوم کے آپسی تہذیبی، ثقافتی، تاریخی، معاشی اور قومی رشتوں کی مضبوطی اور تجدید کی مثال ہے۔ اس سے قبل تمام بلوچ قائدین تونسہ اور ڈی جی خان کے دورے کر چکے ہیں۔
محترم! آپ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد میں اگر کردار ادا نہیں کر سکتے نہ کریں لیکن دو برادر اقوام کے بیچ نفرت کے بیج بونے سے اجتناب کریں۔
جناب! آپ کی تحریر بے دلیل بھی ہے اور بے بنیاد بھی۔ الفاظ کا استعمال بھی کسی طور مہذب کہلوانے کے قابل نہیں۔ نام لے لے کر جس طرح آپ نے بہاول پور کے اکابرین کی توہین کی ہے اسی طرح بلوچ قیادت پر بھی بہتان تراشی کی ہے جو یقیناً ایک غیر مہذب حرکت ہے۔ میں بطور ایک بلوچ اور سیاسی کارکن اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ ہماری سیاسی تربیت ہے کہ جو آپ سے اختلاف رکھے اس کی عزت اتنی ہی کرتے ہیں جتنی اپنے ہم خیال دوستوں کی، لیکن اس طرح آپ کے بے ڈھنگ اور غیر منطقی بہتان تراشیوں سے صرفِ نظر بھی نہیں کر سکتے۔
محترم! بہتر یہ ہو گا کہ ان نفرت کی دیواروں کو اسارنے کی بجائے اگر مل جل کر مشترکہ حکمت عملی سے سامراجی قوتوں کا مقابلہ کریں۔ اس کے علاوہ آپ جناب کو تھوڑی سے سیاسی تاریخ پڑھنے کا مشورہ بھی دوں گا۔ عزت و احترام کے معیارات سے نیچے اتر کر سستی شہرتوں کے حصول جیسے موذی نفسیاتی مریض ہر وقت نادم و نامراد ٹھہرے ہیں اس لیے آپ اگر خود کو ایک مظلوم قوم کا نمائندہ سمجھتے ہیں تو خود پر اور قوم پر رحم کھائیں اور نفرت کے بیج بونے سے گریز کریں۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو ایک مہذب اور باشعور صاحبِ فراست سیاسی کارکن بننے کی توفیق دے۔ آمین
آپ کا خیر اندیش
ڈاکٹر رؤف قیصرانی
بشکریہ :حال حوال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر