محترم قارئین کرام، آج میری نظر سے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ایک معروف گلوکار کا ایک اشتہار اور اپیل گزری ہے. ہمارے منافقانہ معاشرے میں نہ جانے لوگوں کی اکثریت فنکاروں کے حوالے سے بات کر نے کو کیوں معیوب سمجھتی ہے.لوگ ان کے مسائل پر بولنے اور لکھنے سے کیوں کتراتے ہیں. کیا وہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں. ہم میں سے نہیں.کیا وطن عزیز میں ان کے کوئی حقوق نہیں ہیں. جب اچھائی اور برائی زندگی کے ہر طبقے کے لوگوں کے اندر موجود ہے تو پھر یہ فرق کیونکر ہے. خیر چھوڑیں میں آپ کو کسی فلسفیانہ بحث کی طرف نہیں لے جانا چاہتا. آج میں سیدھی سیدھی اپنے وسیب کے فنکاروں کی بات اور ان کے مسائل آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں شاید یہ جسی طریقے سے وقت کے ارباب اختیار لوگوں اور قانون پر عمل درآمد کروانے والی انتظامیہ کی توجہ حاصل کرکے مناسب حل کا راستہ فراہم کرنے کا باعث بن جائے.
ایک فنکار کی اپیل کا متن من و عن ملاحظہ فرمائیں.
اپیل بنام
عزت ماب جناب عمران خان صاحب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان. عزت مآب جناب سردار عثمان بزدار صاحب وزیر اعلی پنجاب. جناب عالی، میں ایک سرائیکی گلوکار ہوں. سرائیکی گلوکاروں، فنکاروں کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ صرف سرائیکی وسیب کے گلوکار ہی ساؤنڈ ایکٹ کے تحت متاثر ہو رہے ہیں. گلوکاروں، فنکاروں، میوزیشن حضرات کے گھروں میں فاقہ کشی تک نوبت پہنچ چکی ہے. شادی پروگرام کے لیے ساؤنڈ ایکٹ میں ترمیم کرکے پروگرام کا وقت مختص کیا جائے. برائے مہربانی گلوکاروں فنکاروں کے حال پر رحم کیا جائے تاکہ یہ لوگ بھی شادی کے پروگرام کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں. والسلام، سرائیکی عوامی گلوکار اجمل ساجد جندو پیر کمال تحصیل لیاقت پور ضلع رحیم یار خان. 03009682246.
وطن عزیز اور صوبہ پنجاب میں نافذ العمل ساؤنڈ ایکٹ کی پابندی اور عمل درآمد میں سختی کی ضرورت کب اور کیونکر پیش آئی.اگر غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو یہ پابندی بلا جواز اور ناجائز بھی نہیں ہے کیونکہ ماضی میں ساؤنڈ اور لاوڈ سپیکر کے بے جاہ اور کثرت استعمال نے لوگوں کی راتوں کی نیند اور دن کا آرام ان سے چھین لیا تھا.شادی بیاہ کے مواقع پر نان سٹاپ بڑی اونچی اونچی آواز میں لاؤڈ سپیکر گونج رہے ہوتے تھے. بارات کے ساتھ لاوڈ سپیکروں والے پورے راستے میں ایک طوفان سا برپا کیا ہوتا تھا. مذہبی اجتماعات خاص طور پر مولوی صاحبان کے جلسوں میں اشتعال انگیز تقریروں اور نعرے بازی سے لڑائی جھگڑے بڑھنے لگے تھے. مولوی صاحب جس وقت جی چاہتا تھا مسجد کے لاوڈ سپیکر سے تقریر شروع کر دیتے تھے. سیاسی اجتماعات، جلوس اور ریلیوں میں لاوڈ سپیکر کا بے جاہ اور بڑھتا ہوا غلط استعمال نقصانات کا باعث بنتا جا رہا تھا. گلی، محلوں اور بازاروں میں اشیاء بیچنے والوں نے ایک اودھم مچا رکھا تھا.لوگوں کے روکنےیا سمجھانے سے نوبٹ لڑائی جھگڑوں کی طرف بڑھ رہی تھی. یقینا یہ ساری باتیں کسی طرح بھی مناسب سمت جاتے ہوئے نظر نہیں آ رہی تھیں.ان حالات میں ساؤنڈ ایکٹ پر سختی سے عمل درآمد یقینا وقت کی ضرورت تھی اور ہے. ساؤنڈ ایکٹ پر پابندی برقرار رکھی جانے چاہئیے.
لیکن وقت کی ضرورت، حالات و حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں مناسب ترمیم یا نرمی پر غور کر لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے. اگر ساونڈ ایکٹ پر پابندی اور اضافی سختی کی وجہ ایک بڑا طبقہ اور سینکڑوں ہزاروں خاندانوں کا روز گار متاثر اور تباہ ہو رہا ہے تو ان کی معاش کے بچاؤ کی حد تک ریلیف دینے میں کوئی حرج نہیں ہے. جیسا کہ خطہ سرائیکستان کے ایک نمائندہ اور معروف گلوکار اجمل ساجد نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار سے اپنی اپیل میں گوش گزار کیا ہے. فنکاروں کی اس اپیل کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی بجائے اس پر ہمدردانہ غور کی ضرورت ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ شوبز اور گلوکاری سے وابستہ حضرات کے آوٹ ڈور پروگراموں کی نوعیت کو دیکھا جائے.ساؤنڈ کے بغیر ان کا پروگرام کرنا ممکن ہے یا نہیں. ساونڈ کے بغیر پروگرام سے ان کا روزگار کس حد تک متاثر ہو رہا ہے. دوسرا اہم سوال جوکہ اجمل ساجد نے اپنی اپیل میں اٹھایا ہے وہ سرائیکی خطے کی احساس محرومی کو بڑھاوا دینے والی بات ہے. اگر سندھ اور اپر پنجاب کے فنکاروں کو رعایت اور چھوٹ حاصل ہے تو پھر سرائیکی خطے کے فنکاروں پر ہی اتنی زیادہ سختی کیوں کر دی گئی ہے کہ وہ چیخنے چلانے کے بعد ملک کے وزیر اعظم اور صوبے کے وزیر اعلی کو اپیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں.
یہی کچھ ہم اپر پنجاب اور سرائیکی وسیب کےمزارات اور بزرگان دین کے عرس کی تقریبات کے ایام میں تفریحی و ثقافتی سرگرمیوں پر پابندیوں کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں. جن کے بارے میں خانوادہ خواجہ فرید سرائیکستان عوامی اتحاد کے سربراہ خواجہ غلام فرید کوریجہ کوٹ مٹھن شریف میں ہفتہ وار 232 واں احتجاج اور دھرنا دے چکےہیں اور ہنوز ابھی یہ سلسلہ جاری ہے. ان کا کہنا یے کہ ملک اور صوبے کے تمام علاقوں اور تمام لوگوں کے لیے ایک قانون ہے تو اس پر عمل بھی یکساں ہونا چاہئیے . یہ ایک عیلحدہ ٹاپک اور طویل بحث ہے اس پر پھر کبھی کھل کر بات کریں گے. سر دست آج ہم فنکاروں اور ان کے مسائل کے حوالے سے بات کر رہے ہیں. فنکار بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں. انہیں بھی اپنا کام کرنے، زندگی گزارنے کے لیے روزگار اور پروگراموں کی ضرورت ہے.
وطن عزیز میں موسیقی اور گیت گانے پر تو کوئی پابندی نہیں اور نہ ہی ڈانس کرنے پر کوئی قدغن ہے.بات صرف حدود کے اندر رہ کر کرنے کی ہے. ملک کے نامور اور بڑے تعلیمی ادارواں کے اندر میوزک کی کلاسز لی جا رہی ہیں اور نہ کیے جانے والے جگہوں پر پروگراموں میں ڈانس بھی کیے جا ریے ہیں.سرائیکی وسیب میں متوسط طبقے کی تفریح اور غریب فنکاروں کے پروگراموں پر پابندیاں اور سختی ہے. لیکن یہاں پر کسی مسئلے کے حل کے لیے لگائی جانے والی پابندی کو اور مزید مسائل پیدا کرنے کا باعث و سبب بنا دیا جاتا ہے.ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے. جہاں ہم اپنے حق کی بات کرتے ہیں وہاں ہمیں دوسروں کے حقوق یعنی اپنے فرائض پر بھی ضرور دھیان دینا چاہئیے. یہی سوچ ایک مثبت اور متوازن معاشرے کی بنیاد ہے.
گذشتہ دو سال سے رحیم یار خان میں ہم دیکھتے چلا آ رہے ہیں کہ ساونڈ ایکٹ کی پابندی سے فنکار اپنا روزگار تباہ ہونے کی چیخ و پکار کرتے چلا آ رہے ہیں. پروگرام نہ ملنے یا بہت کم ہو جانے کی وجہ سے فنکاروں نے ایک دوسرے کو معاشی. سہارا دینے کے لیے اپنی یا بچوں کی سالگرہ کے نام سےپروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا تھا جن پر مسلسل پولیس چھاپوں نے ان کی چیخیں نکلوا دی ہیں. فنکاروں پر پولیس مقدمات کا اندراج بڑی تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے. جائز چھاپوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے کچھ مخصوص لوگوں نے ناجائز اور فرمائشی چھاپوں کا کاروبار بھی شروع کر دیا. ایسی کئی درجنوں مثالیں موجود ہیں. گذشتہ دنوں عباسیہ ٹاون رحیم خان کے ایک واقعے کی انکوائری با آرڈرز ڈی آئی جی بہاول پور ایس پی انویسٹی گیشن رحیم یار خان کے زیر تفتیش ہے. اس واقعے میں پولیس نے ایک ڈانسر خاتون کے سالگرہ کے پروگرام میں ایک ہی گھر سے درجنوں لوگوں کو گرفتار کیا پھر تین مختلف جگہوں اور لوکیشن کے تین مختلف پرچے درج کیے گئے ہیں. ان کی کورمے کی دیگ اور نان وغیرہ بھی کھا گئے .فحاشی اور قحبہ خانوں کے خلاف ضرور کاروائی ہونی چاہئیے.لیکن کوئی بھی کاروائی کرتے ہوئے قانون، میرٹ اور انصاف کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئیے. عباسیہ ٹاون کا ایک گلوکار اور استاد ڈانسر بھی اس قسم کا چھاپہ اور کیس بھگتا چکے ہیں. خیر چھوڑیں آج کے موضوع کی نوعیت کی وجہ سے یہ واقعات بھی درمیان میں آ گئے ہیں. کیونکہ فنکاروں کا ہم سے ملنا جلنا رہتا ہے. اس لیے ان کے بہت سارے معاملات اور مسائل کا علم ہوتا رہتا ہے.
رحیم یار خان جہاں ایک زرعی، صنعتی، علمی و ادبی شہر ہے وہاں یہ ایک ثقافتی اور تفریحی شہر بھی ہے. پاکستان بھر میں سب سے پہلے سرائیکی ٹیلی فلمیں بنانے والا شہر، سب سے زیادہ سرائیکی فلمیں بنانے اور شوبز میں نمایاں مقام حاصل کرنے والا شہر.کئی معروف فنکاروں کا شہر بھی ہے. مگر نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری سطح پر نہ تو ضلع رحیم یار خان میں کوئی مناسب باقاعدہ آڈیٹوریم ہال وغیرہ ہے جہاں باقاعدہ تفریحی و ثقافتی پروگرام انعقاد پذیر ہوں.الحمرا لاہور اور ملتان آرٹس کونسل کی طرح یہاں کے عوام اور فنکاروں کو بھی جدید ہالز اور آرٹس کونسل کی ضرورت ہے. بہاول پور آرٹس کونسل صرف بہاول پور شہر تک محدود ہے ضلع رحیم یار خان کے فنکاروں کے لیے اس کا کوئی بڑا اور قابل ذکر کام نہیں ہے. ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکمران رحیم یارخان کو تفریحی اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ اور فنکاروں کے روزگار کے تحفظ کے لیے یہاں آرٹس کونسل قائم کریں جدید طرز کے ہال تعمیر کریں. ضلعی انتظامیہ فنکاروں کےلیے ضابطہ اخلاق بنائے تاکہ فنکار اس کے اندر رہتے ہوئے اپنا روزگار جاری رکھ سکیں.پولیس چھاپوں اور گرفتاریوں سے ان کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے نہ ہوں.
ڈی پی او رحیم یار خان منتظر مہدی کا یہ فیصلہ اور اقدام قابل ستائش ہے. جس کے تحت ضلع رحیم جار خان میں اپنے فرائض میں غفلت کے مرتکب ہونے اور منفی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث پولیس ملازمین کے کاروائی اور معطلی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے. یقینا اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے تھانوں کے اندر اور باہروں لاقانونیت، غفلت، لاپرواہی اور کوتاہیوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ