ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کچھ نہیں بلکہ بہت زیادہ مشکل پیش آتی ہے ورنہ سچ یہی ہے کہ پورا معاشرہ ہی عدم برداشت کا شکار ہے۔
اپنی اپنی پسند کے ظالم و مظلوم رکھنے والے سماج میں ہر شخص خود کو دیوتا اور دوسرے کو شیطان سمجھتا ہے۔
مافیاز ہیں زندگی کے ہرشعبہ میں اور زعم برتری ہے۔
یہ کہنا کہ لاہور میں ڈاکٹروں اور وکلاء کے جھگڑے یا وکلاء کے ہسپتال پر حملے نے ”ہمارا اصل” آشکار کردیا ہے درست نہیں۔
ہم ایسے ہی تھے جیسے اب ہیں ایسے میں اصل کا کیا آشکار ہونا تھا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ سماجی وحدت کے جذبہ پر طبقاتی تعصب اور کمرشل ازم غالب آجائے تو ایسی ہی تصویریں بنتی ہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمیں اپنے طبقے’ ذات برادری’ مسلک اور پروفیشن کے لوگوں سے ایک خاص انسیت ہوتی ہے اور دوسروں کے لئے حقارت ہی حقارت۔
جس معاشرے میں فقط نام لکھ لینے کو خواندہ مان لیا جائے وہاں ڈگری ہی تعلیم یافتہ ہونے کی "سند "ہوتی ہے۔
اچھا کیا اگر تعلیم علم سے خالی اور ذات تربیت سے محروم ہو تو آدمی انسان بن جاتا ہے؟
کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
ہم اصل میں بنیادی طور پر دیہی سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔ ذات پات اور چھوت چھات کے ساتھ کچھ ذاتوں کا احساس برتری اسی سماج سے پھوٹا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ آج ہم جدید شہروں میں بستے ہیں’ جدید سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں مگر کیا ہم نے کبھی خود اپنی ذات میں جدیدیت لانے کی شعوری کوشش کی؟۔
جی نہیں’ اندھی تقلید’ ہر چیز میں سے بیرونی سازش تلاش کرنا اور پسندیدہ امت ہونے کا زعم ان تین چیزوں نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔
ایک نہیں کئی بار ان سطور میں عرض کیا ہم جسے انسانی سماج سمجھ رہے ہیں یہ ”آدمیوں کاجنگل” ہے’ بے ترتیب خود رو جنگل می یہی ہوتا ہے جو ہمارے چار اور ہو رہا ہے۔
فرد یا جتھے ہر دو صورتوں میں صرف ہم درست ہیں۔
بٹوارے کو بہتر سال ہوگئے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے بہتر برسوں میں انسان سازی کے لئے ہم ایک ادارہ بنا پائے؟۔
بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کروں گا’ یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہے’
نصاب تعلیم علم تک رسائی کاذ ریعہ ہے’ علم کے بغیر تعلیم ایسے ہی ہے جیسے دولے شاہ کے چوہے۔
آپ بھی کہیں گے یہ کیسی باتیں لے کر بیٹھ گیا۔ پچھلے ایک کالم اور چند تحریروں پر میرے ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا
” شاہ جی! آپ بھی مایوسی کاشکار ہیں؟”
صاف گوئی سے عرض کیا
”لاہور اور ا ٹک کے واقعات نے مجھ امید پرست کے اندر مایوسی کی لہر دوڑا دی ہے”۔
خدا لگتی بات یہ ہے کہ مجھے بہت ملال ہو رہا ہے کہ 2007ء میں جب میری فیملی کو سپانسر شپ کے تحت امریکہ کی شہریت ملی تھی تو مجھے یہاں سے چلا جانا چاہئے تھا۔
بارہ برسوں میں محنت مزدوری کرکے کچھ نہ کچھ سٹ ہوگیا ہوتا۔
تب مجھ پر اپنے وسیب اپنے لوگوں اور اپنے سماج کی محبت غالب تھی میری ا ہلیہ اور بڑی بیٹی امریکہ چلی گئیں میں فاطمہ کے ساتھ یہیں رہ گیا۔
مجھے کبھی اپنے اس فیصلے پر ملال نہیں ہوا مگر بدھ کے روز جو کچھ لاہور میں ہوا اور چند دن قبل اٹک میں جس طرح ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو اہل مذہب نے انسانی حقوق’ سماجی مساوات اور قانون کی بالا دستی کی بات کرنے پر گھیر لیا اور اس سے معافی منگوائی دونوں واقعات نے مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے۔
پچھلے 36گھنٹوں کے دوران کئی بار محمد علی جناح صاحب کی گیارہ اگست 1947ء والی تقریر کو پڑھ چکا۔
ہر بار اس تقریر کو پڑھ چکنے پرایک ہی سوال ذہن پر دست دیتا۔
کیا پاکستان میں آئین سازوں نے 1952ء 1956ء ایوب خان کے صدارتی آئین یا پھر بھٹو صاحب والے 1973ء کے آئین کی تیاری میں قائد اعظم محمد علی جناح کی اس تقریر کو پیش نظر رکھا؟۔
ہر بار یہی جواب ملتا تھا’ جی نہیں بلکہ چاروں بار قرارداد مقاصد کو پیش نظر رکھا گیا۔
یہی وہ بات ہے جو عرض کرنا مقصود تھا۔ جب بابائے قوم قرار پانے والی شخصیت کی گیارہ اگست 1947ء والی اس تقریر کو ہی یکسر نظر انداز کردیاگیا جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی تو پھر دستور کی عمارت حقیقی بنیادوں پر تواستوار نہ ہو پائی’ مصنوعی پن کتنی دیر تک قائم رہ سکتا ہے’ ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کراس سوال کاجواب تلاش کیجئے۔
شب کے اس تیسرے حصے میں جب یہ سطور رقم کر رہا ہوں تو ایک سادہ سا سوال منہ چڑھا رہا ہے۔ بٹوارے سے اب تک کے بہتر برسوں میں اگر ہم ( اس میں پچھلی نسلیں بھی شامل ہیں) انسانی سماج نہیں تشکیل دے پائے تو کیا جو محرومیاں فکری مغالطے’ تعصبات’ مسائل’ اندھی تقلید اور دیگر خرابیاں اگلی نسلوں کے لئے چھوڑ جائیں گے ان سب خرابیوں کے ہوتے ہوئے ہماری اگلی نسلیں با شعور انسانی سماج تشکیل دے پائیں گی؟۔
ایک ایسا سماج جو فرد اور جتھوں کے تعصبات’ محرومیوں’ نا انصافیوں’ طبقاتی استحصال سے پاک و محفوظ ہو؟۔
میں جب کبھی ایسی باتیں سوچتا اور سوالوں پرکڑھتا ہوں تو فقیر راحموں مجھے سمجھانے لگتا ہے’ وہ کہتا ہے
شاہ جی! اپنے اصل سے کٹے سماج میں مصنوعی پن کے ساتھ ساتھ 61 سال جی لینا بھی غنیمت سمجھو۔
مطلب؟ میں پوچھتا ہوں تو جواب ملتا ہے’
شاہ جی’ ہمارے پاس اپنا کیاہے’ تاریخ دوسروں کی’ شناختیں بیگانی’ اپنی تاریخ’ تہذیب و تمدن’ کلچر’ روایات کو جوتے مارتے لوگوں کا انجام یہی ہوتا ہے۔
خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
ساعت بھر کے وقفے سے فقیر راحموں کہتا ہے ‘
جب تک اس کثیر القومی ملک کے اہل دانش اس سچائی کو تسلیم نہیں کرتے کہ ہمیں اپنے اصل سے رجوع کرنا ہوگا تاریخی و تہذیبی طور پر اس وقت تبدیلی نہیں آسکتی۔
ہمارے لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ مذہب تبدیل کر لینے میں کوئی خرابی نہیں۔
بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب اپنی تاریخ اور ورثے پر جوتے برسائے جائیں۔
بات تو فقیر راحموں کی درست ہے مگرہمارے لوگوں کو یہ بات سمجھائے گا کون ?۔
ہر شخص تو اپنے تئیں خدائی اختیار سنبھالے دین و فکر اور عقیدے کے درست و غلط ہونے فیصلے کرنے میں مصروف ہے۔
چلیں اس موضوع پر پھر بات کریں گے
فی الوقت تو یہ کہ حسین بن منصور حلاج نے کہا تھا
” ان کوڑھ مغزوں کو کون سمجھائے جو زندگی کے صحرا میں بھٹکتے پھر رہے ہیں کہ وہ ساعت بھر کے لئے اپنے اندر جھانک لیں سارے بھید آشکار ہوجائیں گے”۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ