نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقبوضہ کشمیر: جامع مسجد میں مسلسل 19ویں جمعہ بھی نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی گئی

کشمیر کی تحریک آزادی کے دوران بھی اسے آئے دنوں نمازیوں کے لئے بند کردیا جانا ایک معمول سا بن گیا تھا

مقبوضہ کشمیر:جامع مسجد کی بندش ، تاریخ کے آئینے میں
مقبوضہ کشمیر: شہر کی سب سے بڑی عبادت گاہ جامع مسجد میں مسلسل 19ویں جمعہ بھی نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی گئی

سرینگر ،

مقبوضہ کشمیر میں سرینگر کے نواحی علاقے نوہٹہ میں واقع چھ سو سالہ قدیم اور وادی کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی حیثیت رکھنے والی تاریخی جامع مسجد میں مسلسل 19 ویں جمعہ کو بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

حکام نے جمعہ کے روز جامع کے گرد و پیش سیکورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا اور جامع کی طرف جانے والی سڑکوں کو بند کرد یا گیا ۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق جامع مسجد کو حریت کانفرنس (ع)کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کی سرگرمیوں کا گڑھ مانا جاتا ہے جہاں وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک مخصوص خطبہ دیتے ہیں اور علاوہ ازیں بڑے موقعوں جیسے شب قدر، اور شب معراج وغیرہ کے موقعوں پر وعظ بھی کرتے ہیں۔

اس سال سے قبل جولائی 2017میں رمضان کے مہینے میں جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔اورڈوگرہ دور کے زوال کے بعد پہلی مرتبہ رمضان کے آخری جمعہ ،جسے جمعتہ الوداع کہا جاتا ہے،کو بھی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔

سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر نے اس مسجد کو پندرہویں صدی میں بنوایا تھا ۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق نوہٹہ کے علاقے میں واقع، جامع مسجد کا کشمیر کی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور جب یہاں بغاوت ہوئی ہے جامع مسجد کسی نہ کسی شکل میں اسکا حصہ بنی رہی ہے اور پھر اسے بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔چناچہ سکھوں اور ڈوگرہ شاہی کے دور میں یہ مسجد لگاتار برسوں بند رہی ہے۔

1842میں سکھ دورکے آخری گورنر شیخ انعام الدین کے دورمیں اس تاریخی مسجد کو کھولا گیا تاہم اس دوران مسلسل11برسوں تک مسجد میں صرف نماز جمعہ ہی ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس دوران جمعہ کو کچھ گھنٹوں کیلئے ہی مسجد کو کھولا جاتا تھا اور بعد میں بند کیا جاتا تھا تاہم1898کے بعد ہی مسجد کو کھولا گیا۔

کشمیر کی تحریک آزادی کے دوران بھی اسے آئے دنوں نمازیوں کے لئے بند کردیا جانا ایک معمول سا بن گیا تھا۔1989میں مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد سے یہ مسجد بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں کا مرکز بن کے ابھری ہے اور ہر جمعہ کو نماز کے بعد ہزاروں لوگ جلوس نکالنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں جنہیں روکے جانے کے بعد نوجوانوں اور سرکاری فورسز کے مابین جھڑپیں یہاں ہر جمعہ کا معمول ہو گئی ہیں۔

ذرائع  کے مطابق 2016میں حزب کمانڈر برہان وانی کے قتل کے بعد بھی اس مسجد کو قریب چار ماہ تک بند کردیا گیا اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تاہم 2017میں پہلی بار جامع مسجد کو رمضان کے متبرک مہینے میں پہلے بھی جمعہ کے موقعہ پر،پھر جمعتہ الوداع کے خصوصی موقعہ پر بند کیا گیا تھا۔

وادی کے اطراف واکناف میں جمعہ کے روز بھی ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر رہی، بازار بند رہے، تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل متاثر رہی تاہم نجی گاڑیوں کی جزوی نقل حمل جاری ہے۔

ذرائع  کے مطابق بھارتی حکومت نے 5 اگست کو دفعہ 370 کو ختم کر کے جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام خطوں میں تقسیم کیا۔اس فیصلے کے چند گھنٹے قبل انتظامیہ نے وادی کشمیر میں سخت ترین پابندیاں عائد کی تھیں۔انتظامیہ کی جانب سے پابندیاں ہٹانے کے بعد غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔

About The Author