یہ ملک پاکستان تضادات کا ملغوبہ ہے یہاں پر رہنے والا ہر شخص اپنے تئیں ایک عجیب کشمکش ،سماجی و مذہبی غلامی اور جبر کے پاٹوں میں پس رہا ہے۔
ہر شخص یہاں کنفیوژن اور فرسٹریشن کا شکار ہے جس کی وجہ سے بات بات پر غصہ، نفرت اور نرگسیت ہمارے انفرادی رویوں میں نمایاں ہے۔
کوئی سیاست دانوں سے نالاں ہے، کوئی مولویوں سے بیزار ہے، کوئی فوج کو ان مسائل کا ذمہ دار سمجھتا ہے تو کوئی بیوروکریسی سے غصہ دکھاتا ہے الغرض ہر شعبہ زندگی کے لوگ ایک دوسرے سے ” خار” کھاتے ہیں۔
اس نفسا نفسی کے عالم میں ہمارا اجتماعی شعور اور رویہ فاشزم کی گھناؤنی شکل میں ہماری اخلاقیات اور نفسیات کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
اس سوال کا جواب ایمانداری سے تلاش کریں تو ہمیں بھاری بھرکم فلسفے یا نفسیات کی کتابوں کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ چند موٹے موٹے مروجہ اور رائج الوقت اصولوں کو مد نظر رکھ کر اس کا جواب ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
جدید دنیا میں ریاست کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ریاست بطور ادارہ لوگوں کے اجتماعی شعور اور رویوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد قابل قدر ماہر سیاسیات اور نفسیات دانوں نے اس پر بہت ساری تحقیق کی ہیں اور کسی ملک یا سوسائیٹی کے اجتماعی رویوں پر اپنے تھیسز لکھے ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنی سوسائیٹی کی جانچ پرکھ کر سکتے ہیں۔
مختلف ریسرچ اور سٹڈیز کو مد نظر رکھیں تو جو مشترکہ نچوڑ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کے انتظام و انصرام سنبھالنے والے اصل حکمران کسی بھی سوسائیٹی کے اجتماعی شعور اور آگہی کو پنپنے میں بنیادی ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ اصل حکمران وہ ہوتے ہیں جن کے خلاف بات کرنے سے عام انسان گھبراتے اور ڈرتے ہوں خاص کر بادشاہتوں اور نیم جمہوری معاشروں میں یہ بات مسلم ہے۔
یہاں اس ملک میں اصل حکمران کون ہیں اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے، یہاں کس کی سنی جاتی ہے، کس کی مانی جاتی ہے اور کس کی ڈر کے مارے تعریف و توصیف کی جاتی ہے اب وہ وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔
ہم تھوڑا سا بھی نیوٹرل ہو کر اس بات کا مشاہدہ کریں تو مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی کنفیوژن نہیں ہے کہ ” پنڈی سرکار” کی مرضی کے بغیر یہاں پر کوئی مائی کا لال پر نہیں مار سکتا۔ اسی کی مرضی سے نصاب ترتیب دیا جاتا وہی ہمارے بچوں کی ذہن سازی اور نفسیات سازی میں پیش پیش ہیں کیونکہ سب اہم سویلینز شعبوں پر بھی ایک ریٹائرڈ فوجی بیٹھا ہے، وہی جرم و سزا کے پیمانے طے کرتے ہیں ، وہی حکومتیں چلاتے اور گراتے ہیں۔وہی کافر اور مسلمان کی فیکٹریاں چلاتے ہیں، وہی فتوے اور بیانئے ترتیب دلواتے ہیں، وہی طے کرتے ہیں کب جنگ ہو اور کب امن ہو، وہی حب الوطنی اور اچھے شہری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے ہیں۔وہی ڈرا اور دھمکا کر ہمیں چپ رہنے پر مجبور کرتے ہیں اور وہی ہمارے آئین و قانون کو اپنی مرضی سے توڑتے اور جوڑتے ہیں۔
ایسی فضا میں عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہم وطن تمہارا ہے ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں۔
انہی کی فاشسٹ سوچ کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تیزی سے فاشزم کی بد ترین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہاں جن کے جتنے بڑے جتھے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ طاقتور ہے۔ ان کے آگے نہ قانون ٹکتا ہے اور نہ ہی ملک کی مشینری کارگر ہوتی ہے۔وکیلوں سے لیکر مولویوں تک، ڈاکٹروں سے لیکر استادوں تک اور سٹوڈنٹس سے لیکر ٹرانسپورٹرز تک سب اپنے اپنے قانون، اخلاقیات اور رویوں میں فاشسٹ سوچ کے حامل ہیں۔اس نفسا نفسی میں کوئی کسی سے محفوظ نہیں ہے سوائے ایک ادارے کے۔
وہ آج بھی محفوظ اور قانون سے مبرا ہے، باقی سب اس سے ڈرتے ہیں، اس کے آگے ہیچ ہیں، انکی کالونیاں ان کا رہن سہن ان کے طور اطوار آج بھی کسی سامراجی کالونیلزم کی کلاسیکل یاد دلاتے ہیں۔
ان کے سامنے جس نے بھی مزاحمت کی وہ یا غائب کر دیا گیا یا تو مار دیا گیا تو اس طبقاتی تفاوت اور بے تحاشا طاقت کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جس کو آج عام لوگ بھگت رہے ہیں۔
مشہور فلسفی ٹالسٹائی ایسی صورتحال کو اجتماعی غلامی کے بھیانک شکل قرار دیتا تھا اس کے بقول بے تحاشا طاقت رکھنے والا ادارہ یا شخص بھی ایک قسم کا غلام ہی ہوتا ہے اور یہ شکل کبھی بھی کسی سوسائیٹی کی ترقی کیلئے سود مند ہرگز نہیں ہوتی بلکہ اس سے پورا سماج شدید گھٹن اور بیگانگی کا شکار ہو کر شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور شدت پسندی و نفرت پورے سماج کو کھا جاتے ہیں۔
اس سوال کا جواب ایمانداری سے تلاش کریں تو ہمیں بھاری بھرکم فلسفے یا نفسیات کی کتابوں کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر