لاہور میں بدھ11دسمبر کو رونما ہوئے افسوسناک واقعہ کے حوالے(پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال پر وکلاء کے حملے) سے دوباتیں بہت اہم ہیں
اولاً یہ کہ وکلاء سیشن کورٹ سے جلوس کی شکل میں ہائیکورٹ کے لئے روانہ ہوئے کہ(کم از کم انہوں نے یہی بات مختلف اداروں کے اہلکاروں کو بتائی) وہاں ایک اجلاس میں شرکت کرنی ہے پر جی پی او،ہائیکورٹ چوک پر پہلے سے موجودوکلاء کا ایک گروپ ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔
مال روڈ کے دو حساس مقامات پنجاب اسمبلی اور گورنر ہاوس کراس کر کے سینکڑوں وکلاء ایوان تجارت والی سڑک سے ہوتے ہوئے شادمان چوک پہنچے پھر جیل روڈ پر بائیں ہاتھ مڑ گئے۔
وکلاء نعرے لگاتے اور سوشل میڈیا پر لائیو ویڈیو نشر کرتے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ وہ پنچاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈ یالوجی کے باہر جمع ہوگئے۔
ان کی آمد سے قبل چند خواتین وکلاء ہسپتال کے مرکزی دروازے کے اندرونی سمت میں کھڑی تھیں جو نہی وکلاء کا جلوس وہاں پہنچا ان خواتین وکلاء نے نعرے بازی شروع کردی اور ساتھیوں کو گیٹ توڑنے کا مشورہ دیا۔
وکلاء نے گیٹ کا تالہ توڑا اندر داخل ہوئے اور پھر ہسپتال میدن جنگ بن گیا۔
سوال یہ ہے کہ سیشن کورٹ سے براستہ مال روڈکارڈیالوجی ہسپتال کا فاصلہ لگ بھگ چھ سے ساڑھے چھ کلو میٹر ہے۔وکلاء کے نعرے اور اعلانات واضح تھے انہیں یہ سفر طے کرنے میں پونے دو گھنٹے لگے اس دوران لاہور کی ضلعی انتظامیہ،پولیس اور دیگر ادارے کہاں آرام فرما رہے تھے؟
دوسری بات اصل میں پہلی بات ہی ہے
وہ یہ کہ چند دن قبل کارڈیالوجی ہسپتال میں پیرا میڈیکل سٹاف اور وکلاء کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔اس جھگڑے کی وجہ ایک معزز وکیل کا اپنی والدہ محترمہ کے لئے چیک اپ کے لئے لائن میں لگ کر پرچی بنوانے کی بجائے فوری توجہ کا مطالبہ تھا جس پر ان کی عملے سے تو تکرار ہوئی انہوں نے فون کر کے ساتھی وکلاء کو بلالیا اور پھر تصادم ہوگیا بعد ازاں وکلاء کے مطالبہ پر مقدمہ میں ڈاکٹرز کو بھی فریق بنالیا گیا یوں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف یکجا ہوگئے۔
وکلاء کے دباو پر ہی ایک معمولی جھگڑے کی ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعہ شامل کی گئی۔
وکلاء اپنی ہڑتال پر تھے اور ہستال میں ڈاکٹرز اور عملہ ہڑتال پر تھا
دونوں طرف لیڈران تقریروں سے جی بہلاتے اور زور خطابت دیکھاتے رہے۔
ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل کے جلسے میں ینگ ڈاکٹرز کے ایک راہنما نے اپنی تقریر میں وکلاء کا جی بھر کے تمسخر اُڑایا جس پر خوب تالیاں بجائی گئیں۔
10دسمبر کو جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو ینگ ڈاکٹرز کے اس رہنما نے ایک ویڈیو بیان نشر کیا اور بعد ازاں پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ہماری وکلاء سے صلح ہوچکی ہے جس ویڈیو کو ایشو بنایا جارہا ہے وہ چند دن قبل کی ہے ہم وکلاء سے معذرت کرچکے ہیں۔
10دسمبر کو جب وکلاء کا تمسخر اڑانے والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو لاہور ہائیکورٹ اور سیشن کورٹ کے ینگ وکلاء کے مختلف گروپوں کے ہنگامی اجلاس منعقد ہوئے اور11دسمبر کو کارڈیالوجی ہسپتال کے باہر احتجاجی مظاہرے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہاں یہ سوال اہم ہوگا کہ جب انتظامیہ کو 11دسمبر کے احتجاج بارے 10دسمبر کی سپہر پتہ چل چکا تھا تو موثر اقدامات پر توجہ کیوں نہ دی گئی؟
ثانیاً یہ کہ خود بارز کے سینئر وکلاء کیوں خاموش رہے؟
وکلاء سینکڑوں کی تعداد میں جلوس کی شکل میں ہسپتال کے باہر پہنچے۔ہسپتال پر حملہ ہوا،ایمرجنسی اور وارڈز میں توڑ پھوڑ ہوئی بروقت طبی امداد نہ ملنے سے ایک مریض خاتون جاں بحق ہوگئیں مگر اس ساری صورتحال میں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔
وکلاء نے ہسپتال کے قرب وجوار میں دکانیں زبردستی بند کروائیں فائرنگ بھی کی پولیس کی کارروائی(لاٹھی چارج اور آنسو گیس) ہنگامہ آرائی شروع ہونے کے لگ بھگ50منٹ بعد شروع ہوئی وہ بھی تب جب میڈیا نے ایک مریضہ کے جاں بحق ہونے کی خبرنشر کر دی۔
اس مرحلہ پر ایک ظلم یہ ہوا کہ ایک نیوز چینل نے4افراد کے جاں بحق ہونے کی اورایک نیوز ویب سائٹ نے انہتائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے12مریضوں کے جاں بحق ہونے کی خبر جاری کردی۔
افواہوں کا جمعہ بازار لگ گیا جس کے جو جی میں آیا کہتا بولتا اور آگے بڑھاتا چلا گیا۔
11دسمبر کے اس المناک واقعہ نے تحریر نویس کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا سال1980ء یاد دلادیا۔
پنجاب میں ساہیوال کے قریب طلباء اور ٹرانسپورٹروں کے جھگڑے سے جنم لینے افواہوں میں کہیں بسوں کے عملے اور کہیں طالب علموں کی آنکھیں نکال دینے کی کہانیاں گردش کرنے لگیں۔
طلباء اور ٹرانسپورٹروں نے ہڑتال کردی۔
دودن خوب ہنگامے ہوئے تیسرے دن حالات معمول پر آئے تو پتہ چلا جھگڑا معمولی نوعیت کا تھا۔آنکھیں نکال دینے والی خبریں من گھرٹ تھیں۔
لاہور میں وکلاء اور کارڈیالوجی کے عملے کے تنازعہ میں بھی حقائق سے زیادہ ینگ ڈاکٹرز کے ایک رہنما کے لچر پن اور افواہوں کا عمل دخل تھا۔
مثلاً رحیم یار خان سے میرے ایک وکیل دوست نے مجھے لکھا
”دووکیل زخمی ہو کر ہسپتال پہنچے انہیں طبی امداد دینے کی بجائے مارا پیٹا گیا” ۔
ان کی خدمت میں عرض کیا خدا کے بندے یہ تو بتایئے کہ کونسے امراج قلب کے ہسپتال میں زخمیوں کا علاج ہوتا ہے؟۔
لاہور میں ہسپتال پر حملے توڑ پھوڑ۔پولیس وین کو آگ لگا کر رقص کرنے ،فائرنگ وغیرہ کا کوئی جواز نہیں جو ہوا وہ صریحاً غلط تھا۔
اب یہ سوال کرنا کہ میڈیا والے ڈاکٹرز گردی پر کیوں چپ رہے؟
یہ بھی غلط ہے۔
میڈیا کاکام خبر دینا ہے اور تصویر کے دونوں رُخ سامنے لانا ہے وکیل دوست میڈیا کو منہ بھر کے گالیاں دے رہے ہیں یہ کس قانون اور اخلاقیات کے تحت درست ہے۔
وزیراعلیٰ کے حکم پر معاملے کا جائزہ لینے کے موقع پر آنے والے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو وکلاء نے گالیان دیں مارا پیٹا یہ بھی غلط کیا
اس سے بڑی غلطی فیاض چوہان نے کی وہ یہ کہ انہوں نے کھٹ سے خود پر تشدد کا الزام نون لیگ پر لگادیا۔
ستم بالائے ستم حکومت کے بعض حامی یہ کہہ رہے تھے کہ وکلاء کے ہسپتال پر حملے کے پچھے لندن میں بیٹھا نواز شریف ہے۔
آدمی کہے تو کیا کہے کڑوا سچ یہ ہے کہ 11دسمبر کے المناک واقع کے ذمہ دار نوجوان وکلاء اور ان کے قائدین ہیں۔
وہ اگر ایک ویڈیو پر برہم تھے بھی تو پرامن احتجاج کرسکتے تھے
انہیں تشدد کا راستہ نہیں اپنانا چاہیئے تھا۔
افسوس کے وہ اب بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ پیرا میڈیکل سٹاف کی طرف سے وکلاء پر تشدد کے واقعہ کے بعد رائے عامہ ہسپتال عملے کے خلاف تھی وہی رائے عامہ11دسمبر کے واقعہ کے بعد وکلاء کے خلاف ہوگئی۔
پسِ نوشت
کالم لکھ چکا تو پنجاب انسیٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی کی انتظامیہ کے ذرائع کی یہ تصدیق موصول ہوئی کہ بدھ کو ہسپتال کی ایمرجنسی اور وارڈز میں ہونے والی توڑ پھوڑ کے نتیجہ میں بروقت طبی امداد نہ ملنے سے ایک خاتون سمیت تین مریض جاں بحق ہوئے ہیں۔ ہسپتال واقعہ کے حوالے سے چالیس کے قریب وکلاء کو گرفتار کیے جانے کی اطلاعات بھی ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ