)
بیچ چوراہے میں کھڑے ہکا بکا استاد نرالے عالم
اپنے کرتے کی سائیڈ جیب کو دیکھتے ہیں
جس کی ایک سائیڈ ادھڑی پڑی ہے
جیب استاد کے معدے کی طرح خالی ہے
اور صدر کی سڑک کے اُس طرف
بیف بریانی بک رہی ہے
سڑک کے اس طرف
سامنے کھلونوں کی دکان ہے
جس کے شوکیس میں رکھی کھلونا بندوق
اور سپائیڈر مین
اس کے دل میں ملال کو بڑھا رہے ہیں
Baba, I am spiderman
Baba, I need a big toy gun
Baba, I want a big toy car
یہ باز گشت استاد نرالے عالم کے کانوں میں یوں گونجتی ہیں
جیسے آرکسٹرا کورس
بار بار بج رہا ہو
اتنے میں ایک نیاز مند دور سے
دیکھ لیتا ہے استاد کو
بھاگتا ہوا آتا ہے
ہاتھ چومتا ہے استاد کے
بیچ چوراہے میں کھڑے ہونے کا سبب پوچھتا ہے
استاد ادھیڑی جیب دکھاتے ہیں
اور اداس نظروں سے
لبوں پر ملال سے بھری مُسکان لاتے ہیں
نیاز مند اچانک زور زور سے ہنسنے لگتا ہے
وہ کہتا ہے
اب میں اور ہی زمان و مکان سے
استاد تمہیں دیکھ رہا ہوں
کیا اس وقت تمہارے ذہن میں
کسی کو جدلیات پڑھانے کا خیال ہے؟
کسی کو یہ بتانے کا
‘نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی’
کسی اسٹڈی سرکل میں انقلاب کی مبادیات پڑھانے کا
کسی چوک میں جبری گمشدہ کی بازیابی کے لیے ہوئے مظاہرے میں
گلا پھاڑ کر نعرے لگانے کا
میں ابھی’ ہذا من فضل ربی’ سپننگ مل سے
ڈیوٹی کرکے لوٹا ہوں
ڈیلی ویجر ہوں
مستقل ہونے کا طالب ہوں
مگر آج یومیہ اُجرت کا ملنا اچھا لگنے لگا ہے
مبلغ 2000 روپے کا مالک ہوں
آٹھ سو روپے کا راشن لینا ہے
چلو چائے، سگریٹ، اور دیسی ٹھرے کا بجٹ آپس میں بانٹ لیتے ہیں
ٹنچر جیسے ٹھرے کے ساتھ
استاد! تُم اگرچہ گوشت خوری کرتے ہو
مگر خالی معدے کو کاٹتی ہوئی گھٹیا الکحل کے ساتھ ساتھ
پچاس روپے کے گرم پاپڑ اور نمکین مونگ پھلیاں
ٹھونس لینا
کیسا رہے گا
نیاز مند پھر سے قہقہ لگاتا ہے
اپنی پھٹی پرانی جرسی کے نیچے
ہاتھ ڈالتا ہے
ایک جادوگر کی طرح سے
کارل مارکس و اینگلز کی لکھی
کمیونسٹ مینی فیسٹو نکالتا ہے
اور ساتھ ہی جرسی کی بغلی جیب سے
‘Family, Property, State’
نکال کر
استاد کے سامنے لہراتا ہے
استاجی!
بورژوازی پُرانی شراب جیسی ہے
کراچی صدر میں ادھڑی جیب کے ساتھ کھڑا مارکس وادی
پہلے توڑ کی دیسی کُپی جیسا ہے
دونوں کا نشہ سر چڑھ کے بولتا ہے
حالت بے سر و سامانی میں پرولتاریہ کی بے بسی کو
نکمے پن کا طعنہ سہنا ہوتا ہے
اور لیموزین میں بیٹھے کسی بڑے سیٹھ کی پریشانی
اینگزائٹی کہلاتی ہے
ڈپریشن کہلاتی ہے
اور بڑھ جائے تو
بائی پولر ڈس آڈر
بورژوازی کے ہاں کم مائیگی سرمائے کی صورت نہیں ہوتی
یہ دماغی کہلاتی ہے
شیزوفینیا جیسے طلسماتی نام رکھتی ہے
ہمارے ہاں کم مائیگی افلاس میں لُٹ جانے کا نام ہوتی ہے
پندار کے کرچی کرچی ہونے کا نشان ہوتی ہے
استاد، کیا یہاں ساری رات کھڑے رہنا ہے
ادھڑی جیب سلوانا مت
اس میں کچھ بھی رکھنا مت
کسی پیٹی بورژوازی سیاست دان سے ملنے جاؤ
بٹوے والی جیب پر سختی سے ہاتھ رکھنا
آو استاد چلتے ہیں
تمہارے اسمبلی کے سامنے
لُٹ جانے کا سوگ مناتے ہیں
استاد نرالے عالم سب سُنتے رہے
اور آخر میں کہنے لگے
کیا تم سنجیدہ ہو
کیا واقعی سگریٹ، چائے میں شراکت کروگے
پاپڑ اور نمکین مونگ پھلی کے ساتھ
دیسی ٹھرا بھی شئیر کروگے
نیاز مند بولا
استاد کیوں تشکیک کا شکار ہوتے ہو
میں آر ٹی سسٹم ڈاؤن سے سلیکٹڈ کوئی ‘تھکڑ خان’ نہیں ہوں
جو تمہارے جیسوں کو 50 لاکھ گھر دینے کا کہہ رہا ہوں
آج کی اجرت میں سے تین سو روپے کا شریک بنا رہا ہوں
کہو، استاد چلنا ہے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ