برطانوی ماہرِ قانون اور مذہبی پیشوا ہنری آف بریکٹن 1210ء کو پیدا ہوا، اس کی پیدائش کے پانچ سال بعد عالمگیر شہرت یافتہ دستاویز میگنا کارٹا کی اشاعت ہوئی۔ اس تحریر کو حقوق کی دستاویز کہا گیا اورانگلینڈ کے بادشاہ جان آف انگلینڈ نے 15 جون 1215ء کو ونڈسر کے قریب رنی میڈ کے مقام پر اس دستاویز کی منظوری دی۔ میگنا کارٹا لاطینی زبان میں لکھا گیا اور اسے عظیم چارٹر قرار دیا گیا۔ یہ وہ دستاویز ہے جس نے یورپ میں قانون کی حکمرانی کا جدید تصور پیش کیا۔ اس دستاویز میں فرد کے حقوق، حصولِ انصاف اور فئر ٹرائل کے حقوق کی ضمانت دی گئی۔
جس دور میں قانون کی حکمرانی کیلئے میگنا کارٹا جیسی عظیم دستاویز منظر عام پر آئی، لگ بھگ اس سے ملحقہ دور میں ہنری بریکٹن نے ماورائے قانون اور ماورائے آئین اقدامات کے جواز کیلئے “نظریۂ ضرورت جیسی اصطلاح تخلیق کی ۔ اسی ہنری بریکٹن نے ماورائے قانون اقدامات کے جواز کے طور پر ایک اور اصطلاح “عدالتی گریز” بھی وضع کی۔ بریکٹن کے مطابق
نظریۂ ضرورت ریاستی اتھارٹی کو بحال کرنے کیلئے ریاست کو ماورائے قانون اقدام کا اختیار دیتا ہے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے جواز میں جسٹس انوارالحق کی طرف سے نظریۂ ضرورت کے اطلاق پر مذہبی اشرافیہ نے اس جواز کی حمایت میں ایک مقدس آیت مبارکہ پیش کی کہ اگر شدید بھوک کی حالت میں حلال غذا موجود نہ ہو تو سؤر کا گوشت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، اس پر جسٹس شفیع محمدی نے کہا تھا کہ اس آیت کا محض ایک وقتی ضرورت پر اطلاق ہوتا ہے۔ اس اجازت کا مقصد یہ قطعاً نہیں ہے کہ حرام جانور کا گوشت بلا ضرورت روسٹ کرکے روز کی غذاکا حصہ بنا دیا جائے اور مذہب کی آڑ لے کر حرام خوری کو معمول بنا لیا جائے۔
پاکستان میں پہلی بار نظریۂ ضرورت کا عدالتی اطلاق کرتے ہوئے جسٹس منیر نے 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کو سند جواز عطا کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ضرورت اس چیز کو قانونی بنا دیتی ہے جوکہ غیر قانونی ہوتی ہے” ہنری بریکٹن کے مطابق “اصول یہ ہے کہ ہنگامی صورتحال یا غیر معمولی حالات میں ریاست قانونی طور پر ایسا اقدام کر سکتی ہے جو معمول کے حالات میں غیر قانونی ہو” اس غیر قانونی جواز کو ایک دوسرے طریقے سے یوں پیش کیا گیا ہے۔
“اصول یہ ہے کہ ایک غیر قانونی حکومت کے قوانین اگر آئین سے متصادم نہ ہوں تو وہ اس بنیاد پر قانونی تصور ہوں گے،کیونکہ حکومت کا استقرار قانون کے نفاذ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے”
اگرچہ نظریۂ ضرورت انگلینڈ میں وضع کیا گیا مگر اس نظریہ کو برطانیہ میں ایک بار بھی نافذ نہیں گیا گیا۔ یہ نظریہ 13ویں صدی میں وضع کیا گیا اور برطانیہ 17ویں صدی میں بہت بڑے انقلاب سے گزرا۔ چارلس اول اور کرامویل کی جنگوں نے بادشاہت کی چولیں ہلا دیں مگر نظریۂ ضرورت کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یہ ہم پاکستانیوں کی بدقسمتی رہی کہ اس نظریئے کا استعمال بار بار ہمارے ملک میں ہوا۔ مجھے تاریخ کے ایک ادنٰی طالب علم کے طور پر اس امر پر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں ریاستی مقتدرہ سے منسلک افراد کے کہتر احقر اور کمتر نوعیت کے شخصی مفادات ریاستی کے ازلی، دائمی اور تاریخی مفادات سے بالاتر رہے ہیں۔ مجھے جسٹس منیر کی بطور فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) کے جج یا چیف جسٹس تقرری پر حیرت ہے۔ جسٹس منیر نے ریڈ کلف ایوارڈ کے ایک رکن کے طور پر اس ایوارڈ کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جس کا نتیجہ پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور مشرقی بنگال سے شدید ناانصافی بلکہ ان دونوں صوبوں میں بہت بڑی تباہی اور دس لاکھ سے زائد انسانوں کی ہلاکت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جسٹس منیر سے ان کی اس تاریخ کی بدترین غلطی اور غلط کاری پر ان کا مؤاخذہ ہوتا اس کی برعکس انہیں اعلٰی عدلیہ میں اعلی منصب عطا کردیا گیا اور آگے چل کر تو وہ چیف جسٹس بنا دئیے گئے۔ مولوی تمیزالدین کیس میں آئین ساز اسمبلی کی پامالی اور دوسو کیس میں آئین کی پامالی اور مارشل لاء کے نفاذ کو سند جواز دے کر جسٹس منیر نے پاکستان کو آئین شکنی، لاقانونیت، شدید ناانصافی اور عوام اور عوامی اداروں کی بجائے سروسز سے وابستہ چند افراد کی بالادستی کی سر زمین بنا دیا۔ پاکستان دنیا کی واحد سرزمین ہے جہاں اعلی ترین عدلیہ کی طرف سے نظریۂ ضرورت کا کم از کم پانچ بار استعمال کر کے اس ملک کو عملاً ایک بنانا ریاست بنا دیا گیا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954ء کو آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا اور غیر منتخب لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔ آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ چیف کورٹ میں گورنر جنرل کے اقدامات کے خلاف اپیل دائر کردی۔ اس اپیل میں اسمبلی کی تحلیل کو غیر قانونی قرار دینے اور کابینہ کو کام کرنے سے روکنے کی درخواست کی گئی۔ سندھ چیف کورٹ نے قریقین کا مؤقف سننے کے بعد آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا۔ سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے من مانے طور پر فیڈرل کورٹ تشکیل دی فیڈرل کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس ایس ایم اکرام کی سینارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر کو فیڈرل کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا۔ جسٹس منیر قیامِ پاکستان سے قبل ہی غلام محمد کے اشاروں پر رقص کرتے تھے ۔ ان کی یہ تقرری آگے چل کر پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی اور یوں پاکستان محلاتی سازشوں کی آماجگاہ بن گیا اور ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو قانون کا درجہ حاصل ہوگیا۔(جاری ہے)
گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954ء کو آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا اور غیر منتخب لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر