مجھے آج تک سمجھ نہ آ سکی کہ کیوں اور کس طرح لوگوں کے سردیوں کے موسم میں جذبات و احساست رومانوی ہو جاتے ہیںِ؟ مجھے تو خالص کپاس کی بنی ہوئی رضائی کی گرم دنیا چھوڑ کر اور اس سے باہر نکل کر کام کی دنیا میں جانا پڑے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
سرد رُت کی سرد ہواؤں سے میرے جسمانی عناصر کے ظہور کی ترتیب کو شدید خطرات بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔ پچھلے سال جب شدید سردی کے دن تھے، حسبِ عادت میں نے لکڑیوں کا “مچ “ جلا کر دوستوں کے ساتھ اپنا دربار سجایا ہوا تھا کہ ایک دوست سردیوں کی جھڑی میں کانپتا “مچ “ کے پاس آ بیٹھا تو اپنے برف جیسے ہاتھ تاپتے ہوئے حسرت سے بولا ’’یا خالق! اگلے جہان بھی آگ ہی دینا‘‘… کیونکہ سردی سے جان نکلتی ہے۔۔۔۔
ویسے آج کل ایسے موسمی حالات ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پڑنے والی دسمبر کی سردی نامعلوم وجوہات کی وجہ سے پہنچ نہیں پا رہی۔ دراصل ہم نے جو ہر طرف ماحول میں گندگی پھیلائی ہوئی ہے، درخت کاٹ رہے ہیں اور فضاؤں کو جس طرح دھوئیں سے بھر دیا ہے اس میں سردیوں کا صاف ستھرا موسم گم ہو گیا ہے۔ اگر آئندہ بھی سردی کی کمی کی یہی صورت حال اور بجلی و گیس کا موجودہ مشکوک چال چلن برقرار رہا تو شعراء کرام محبوب کے ساتھ ساتھ ان محکموں کو بھی درد مندانہ سندیسے بھیجیں گے کہ “ آ جا تینوں اکھیاں اڈیکدیاں“ ۔
میں تو ہمیشہ سردی کا مقابلہ کرنے کے لیئے گرم ٹوپی، گرم جرابیں، گرم واسکٹ اور گرم جوتوں سے خود کو آرائستہ و پیراستہ کر کے یعنی پوری طرح مسلح ہو کر ہی گھر سے نکلتا ہوں۔ کسی بھی دوست کے گھر یا بیٹھک میں آگ کی انگیٹھی یا “مچ“ جلتا دیکھوں تو اس کے بالکل قریب بیٹھ کر خود کوآگ کے چوکیدار کے عہدے پر تعنیات کر دیتا ہوں۔ سردیوں کے موسم میں میرے لیئے ایک جیسی جرابوں کا جوڑا ڈھونڈنا ہمیشہ ہی مسئلہ رہا ہے۔ اتارنے کے بعد عجیب سی بات ہے کے دوبارا پہننے کے وقت ایک ہی جراب ملتی ہے، دوسری نہیں ۔ یہ معمہ مجھ سے کبھی حل نہیں ہوا کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے۔ جب اپنے ایک فلاسفر دوست کو اس المیہ کے بارے آگاہ کیا تو انہوں نے اس جوڑی کو ‘جدائی’ سے بچانے کے لیے اک آسان سا نسخہ بتایا کہ جرابیں اتارنے کے بعد دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دینا چاہیے، اس کے بعد جرابیں اگر چاہیں بھی تو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو پائیں گی۔واقعی زبردست حل ہے، لیکن اس میں بھی ایک قباحت ہے کہ پھر ایک جراب غائب ہونے کی بجائے دونوں غائب ہو جائیں گی۔ اب وہ فلاسفر دوست میرے اس فلسفے پہ غور و خوص کر رہا ہے کہ مرد جرابیں سب سے پہلے اور عورتیں جرابیں سب سے آخر میں کیوں اتارتیں ہیں ؟ ۔۔
یاد رکھیں جرابیں ہمیشہ جوڑی دار ہی اچھی لگتی ہیں۔ جوڑی نہ رہے تو ان کی اہمیت بھی نہیں رہتی۔وہ تو شکر ہے کہ جرابوں میں دائیں بائیں کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات زیادہ دیر جوتے کے اندر پیروں سمیت پڑی رہیں تو بدبو دینے لگتی ہیں۔ یہ محبت سے انسانی قدموں سے لپٹی رہتی ہیں مگر انسان کبھی انھیں محبت سے چومتا نہیں پایا گیا۔ جوتوں کی طرح جرابیں پیروں کو کاٹتی نہیں ہیں۔ آپ اسے جس جوتے میں رکھ دیں ، جس پیر پر چڑھالیں ، شکوہ نہیں کرتیں۔ جرابیں بڑی بے ضرر اور معصوم ہوتی ہیں۔ بعض نام نہاد جوتوں اور بے ڈھنگے پیروں میں ان کا مثالی صبر اور سمجھوتہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بے چاری جرابیں اس جیسے جوتوں اور پیروں کو بھی رب کی رضا پہ سر جھکائے ہوئے اپنا مجازی خدا ماننے پر مجبور ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ جرابوں کو صرف بند جوتوں کی خلوت میں زندگی گذارنا زیادہ پسند ہے۔ پیروں کی چار انگلیوں بمعہ ایک انگوٹھے کے ساتھ ہی جرابیں بغیر شکوہ کئے اپنی پوری زندگی گزار دیتی ہیں۔ کیونکہ چپلوں کے ساتھ جرابیں شاذ و نادر ہی دیکھی جاتی ہیں۔تلوے چاٹنے والے بعض لوگوں اور سیاستدانوں کے لشکر کی یہی جرابیں ہی سپہ سالار ہیں۔
سائنسی تحقیق سے ثابت ہے کہ پاؤں جسم کا وہ عضو ہے جو سب سے زیادہ پسینہ خارج کرتا ہے اور یہ جرابیں اس بدبو دار پسینے کو اس طرح چوس لیتی ہیں جیسے ہمارے سیاستدان غریبوں کا خون چوستے ہیں۔ بہرحال مرغی اور انڈے کی طرح جوتے اور جرابوں کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون پہلے آیا تھا۔ یہ میرا زاتی مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ مسجد سے جوتے سب چراتے ہیں مگر جرابیں کوئی نہیں چراتا اسکےعلاوہ میلی آنکھ اور میلی جرابیں بھی کوئی پسند نہیں کرتا اور خاص کر کسی کے گھر جاکر جرابیں اتارنا میزبان کی ’ناک‘ کا امتحان ہوتا ہے۔ ایسے امتحانات سے راقمُ الحروف کئی بار گزر چکا ہے اور کئی بار ایسے مہمانوں کا جوتے اتارتے ہی ہوا کے ایسے جھونکوں سے ٹکرا چکا ہے جو نتھنوں سے ٹکر لیتے ہوئے دماغ کے دریچوں تک کو متعفن کرنے کے بعد دل کے آنگن میں اتر کر سڑاند کا باعث بنے ہیں۔
اس لیئے کہیں بھی جانے سے پہلے جرابیں ہمیشہ دھو کر پہنا کریں ایسا نہ ہو کامیابی آپ کے قدم چومنے آئے اور فوت ہوجائے۔ کچھ سلیقہ شعار لوگ تو جرابوں کو دھونے کے بعد استری بھی کرتے ہیں اور اکثر نوجوان خود کو دوستوں کے سامنے کڑکا ثابت کرنے کے لیئے اپنے پیسے بھی جرابوں میں چھپا دیتے ہیں ، خاص کر امتحانات میں نقل چھپانے کے لیئے جرابوں سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ عوامی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ عام دیسی جرابوں سے لنڈے کی جرابیں زیادہ گرم ہوتی ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ لنڈے بازار سے ہماری عوام کے تعلقات اتنے ہی پائیدار اور دیرینہ ہیں،جتنے پاکستان اور امریکہ کے ہیں، بس یہ خیال رہے کہ لنڈے سے جرابیں لیتے ہوئے کوئی عزیز ، دوست یا محلے دار اور خاص کر کوئی ادیب یا لکھاری آپ کو لنڈے کی ریڑھی سے گوہر مقصود نکالتے یا لیتے ہوئے نہ دیکھ لے، ورنہ میر کی طرح آپکی بھی عزت سادات بھی جاتی رہے گی اور سوشل میڈیا پہ رائج نعرہ لنڈے کے لبرل کی بجائے آپ کی شان میں لنڈے کا لکھاری لکھا اور پڑھا جائے گا۔ ہفتوں تک اپنی جرابیں نہ اتارنے والا کسی بھی وقت آپکی کی عزت اتار سکتا ہے۔
آپ مانیں نہ مانیں دنیا مٰں واحد ایک جوڑی ہے جس سے دنیا کا کوئی بندہ بشر نہیں جلتا اور نہ انکو علیحدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ جوڑی صرف اور صرف جرابوں کی جوڑی ہے۔ اگر بالفرض جرابوں کی جوڑی علیحدہ علیحدہ ہو بھی جائے تو میری طرح ہر بندہ اس جوڑی کو ملانے اور ڈھونڈنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے اور اگر یقین نہ آئے تو صبح صبح تقریبا ہر گھر سے کان لگا کر بلند ہوتا یہ شور و غوغا ضرور سنیں۔۔ بلکہ آپ سنیں گے کیا۔۔ آپ خود ہی میری طرح یہی آواز لگاتے ہوں گے کہ “ میری جرابیں کہاں ہیں “۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر