دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بس ایک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔ رؤف لُنڈ

اب امریکی سامراج ہی وہ واحد آقا ھے کہ جس کے اشارہِ ابرو کیمطابق ساری دنیا کو چلنا ہوگا۔کامریڈ رؤف لُنڈ کے قلم سے

پاکستان میں طلبہ مارچ۔۔۔ ہانگ کانگ، چلی، ایران، عراق ، فرانس اور اب کولمبیا میں محنت کش اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر سراپا احتجاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس ایک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارکسزم کیا ھے؟ محنت کشوں کی عالمگیر فتح اور بس۔
ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ پہلے جب عظیم فلاسفر نظریہ دان اور انقلابی کارل مارکس نے یہ نعرہ دیا تھا کہ "دنیا بھر کے محنت کشو ! ایک ہو جاؤ۔ تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور پانے کو سارا جہان پڑا ھے”۔ تو اس عہد میں سرمایہ داری کے طرفدار عقل و علم والے بڑے بڑے جغادریوں نے کارل مارکس کا بڑا ٹھٹھہ اور مذاق اڑایا تھا کہ ” یہاں ایک بستی/شہر والوں کو ساتھ والے گاؤں اور شہر کا پتہ نہیں اور یہ آ گیا ھے دنیا کے غریبوں کو اکٹھا کرنے والا”۔۔۔

مارکس چونکہ ایک سماجی سائنس دان اور نباض تھا۔ اس نے محنت کش طبقے کے سامنے سرمائے کی سرشت اور خباثت کی ساری الف ب کھول کے رکھ دی۔۔ اور دوسری طرف جو لوگ سرمائے کے سرپرست تھے وہ بھی کوئی پاگل نہیں تھے۔ انہیں سرمائے کے فروغ اور اس فروغ میں انسانی بربادی کا ادراک تھا یا نہیں مگر ان کو یہ یقین تب ھی ہوگیا کہ مارکس کا نظریہ پنپنے کی دیر ھے سرمایہ داری کا بوریا بستر پوری دنیا سے لپیٹ دیا جائیگا۔۔۔

بس پھر کیا تھا وہ اپنے نظام کے دفاع میں مذہب ،مسلک، علاقہ، قوم، وطن، ذات پات اور رنگ و نسل کے نیزوں سے مسلح ہو کے میدان میں آ گئے۔ سو دنیا میں جہاں کہیں غریبوں کو یکجا دیکھا اپنے ان نیزوں سے صرف انسانوں کو تقسیم ہی نہیں کیا بلکہ اس قدر بیدردی سے ان کی لاشوں کے انبار لگا دئیے کہ ان غریبوں ، مظلوموں میں سے بچ جانیوالوں نے اپنی نسلوں کو یہ سبق دینے میں عافیت سمجھی کہ کچھ بھی کر لینا، کبھی اکٹھا نہ ہونا۔ کیونکہ سرمائے کے رکھوالے ان وحشیوں کو ہر کمینگی پسند ھے مگر محنت کشوں کا متحد ہونا گوارا نہیں۔۔

لیکن پھر وہ کیا کرتے ان کی اس خباثت کی نشاندھی بھی مارکس نے پہلے سے کردی ہوئی تھی۔۔۔ سو وہ برباد انسان اپنے لاشے اٹھاتے، اپنے زخم سہلاتے اور کراہتے تو رھے مگر زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پہ متحد ہونیکی سوچ سے دستبردار نہیں ہوئے۔۔۔۔ کہ انسانی زندگی کے آگے بڑھنے کے اسی سفر کے دوران نسلِ انسانی نے 1917ء میں کئی ممالک اور براعظموں پر مشتمل سوویت یونین میں وہ انقلاب دیکھا کہ جہاں تاج و تخت زمیں بوس ہوئے۔ اور خاک نشیں معتبر ٹھہرے۔۔۔۔۔
انسانیت کا دشمن بالادست طبقہ یہاں شکست تو کھا گیا مگر ہار نہیں مانی۔۔۔ یہی وجہ ھے کہ دنیا میں جہاں جہاں سوویت یونین کے سوشلسٹ انقلاب نے پھول کھلائے وہاں وہاں تک سرمایہ داری کی زہریلی ہواؤں نے ان گلزاروں کو جھلسا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ پھر نوے کی دہائی میں اقوامِ عالم کے باسیوں نے جیسے تیسے سوشلزم کو روس میں بکھرتے اور اس روس سے جُڑے دیگر ممالک کو اجڑتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔

انقلاب کی شکست و ریخت کے اس موڑ پر امریکی سامراجی دانشور فوکو یاما نے اپنا ایک تھیسس/ نظریہ پیش کیا۔ End of History/ تاریخ کا خاتمہ۔۔۔
فوکو یاما کے اس نظرئیے کا مطلب تھا کہ اب کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں رھی۔ اب امریکی سامراج ہی وہ واحد آقا ھے کہ جس کے اشارہِ ابرو کیمطابق ساری دنیا کو چلنا ہوگا۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔۔۔ فوکو یاما کے اس نظریہ کو پوری دنیا کے سربراہان / حکمرانوں نے بچشم و دل قبول کیا۔ کیونکہ یہی قبولیت ان کو وارے کھاتی تھی۔۔۔ اس سے ان کی لوٹ مار کا راستہ بغیر کسی مزاحمت کے کھل گیا۔ ساری دنیا کے حکمران اور بالادست طبقے کے جغادری امریکہ کے تلوے چاٹنے میں لگ گئے۔ ان کا باوا اعظم امریکہ جس کو بھی شکار کرنے اور تار تار کرنے کو نکلتا سب اس کے قدموں میں جھک جاتے۔۔۔۔ ظلم کی اس سیاہ رات نے تین دہائیوں تک انسانیت پر اپنی تاریکی کے منحوس سائے پوری شدت سے پھیلائے رکھے۔۔۔۔۔

لیکن پھر انسانیت کو تڑپتا نہ دیکھ سکنے والے بھی بڑے ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ یہ ایسے پاگل ہوتے ہیں کہ جو انسانیت کو پڑنے والے ہر چابک پر آواز دھرنے اور ہر رستے زخم کو سہلانے کے باوجود ظلم کی اطاعت سے انکار کر دیتے ہیں۔۔۔۔
یہ اپنے مظلوم بھائیوں کے بدن سے ٹپکنے والے لہو کے لال رنگ سے بہت پیار کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور اسی لال رنگ کے کپڑوں کی اوڑھنی اور دستار بنا کر اپنے طبقے کے بھائی بندوں سے وفا کا عہد باندھ کر میدان میں اترتے رہتے ہیں۔۔۔۔ ساری دنیا اس بات کی شاہد ھے کہ چاہے کہیں دو چار تھے یا کہیں دس بیس اور کہیں سو پچاس۔ ان سرپھرے لوگوں نے ہر وقت مارکسزم، لینن ازم اور سوشلزم کے پرچم کو سربلند رکھا۔ اور ان کے حسبِ استطاعت انقلاب انقلاب سوشلسٹ انقلاب کے نعرے دنیا بھر کی گلی کوچوں میں گونجتے رھے۔۔۔۔۔

آج یہ انقلاب انقلاب ، سوشلسٹ انقلاب کے عزم سے سرشار انہی لوگوں کے نعروں کی گونج اور قدموں کی دھمک ھے جو دنیا بھر کے چپے چپے میں سنائی اور دکھائی دےرہی ھے۔۔۔۔ یہ جو کہا جارہا ھے کہ سب اچانک کیسے ہوگیا؟ ان کے پیچھے کن کا ہاتھ ھے؟ ایسا کہنے والوں سے کوئی پوچھے کہ تمہیں ظلم و بربریت سے فرصت ہی کب تھی کہ تم کسی کی سنتے؟ اور تمہیں پتہ نہیں کہ ان کے پیچھے خود تمہارے ظلم کی داستانیں ہیں۔ اب جبر سہنے والوں کی چیخیں اور کراہیں جرات بھری آوازوں اور نعروں میں بدل رہی ہیں تو حیرت کیسی ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اے ظلم کے رکھوالو ! یاد رکھو ھم ان میں سے بھی نہیں جو تم سے کسی قسم کی آس رکھ کے کہیں کہ ایسا کرو، ویسا کرو ورنہ انقلاب آ جائیگا۔۔۔۔۔ ھم تو کہتے ہیں کہ بہت ہوچکا۔ اب ھم نے انقلاب کرنا ھے۔ لہذا تم وہ سب جو اب تک انسانی ذلت کا سبب اور ننگِ انسانیت رھے ہو اپنی اپنی فردِ عمل اپنے ہاتھوں سنھبال کے رکھو۔۔۔
کہ بقول فیض احمد
یہیں پہ اٹھے گا روزِ محشر ، یہیں پہ سب سزا و جزا ہوگی

About The Author