سوشل میڈیا کی دو اہم ویب سائٹس میں فیس بک اور ٹوئٹر شامل ہیں۔ فیس بک استعمال کرتے مجھے دس سال گزر گئے، چند دن پہلے فیس بک نے اپنے ایک فیچر کے تحت پرانی پوسٹوں کی یاد دلائی تو پتہ چلا کہ نومبر 2009ءمیں فیس بک جوائن کی تھی۔ اپنے دس سالہ سفر پر کبھی الگ سے کچھ لکھوں گا۔ ٹوئٹر میں استعمال کرتا ہوں، اگرچہ ہر کچھ عرصے کے بعد اس سے اکتا کر بریک لینا پڑتی ہے۔
فیس بک استعمال کرنے والوں کو شائد ٹوئٹر زیادہ پرکشش نہیں لگتا۔ٹوئٹر ویسے ون لائنر لکھنے والوں کا اصل میدان ہے۔ سو ڈیڑھ سو الفاظ میں ٹوئٹ کرنا پڑتا ہے۔ ادھر ہم لوگ فیس بک کے عادی ہیں جہاںچودہ پندرہ سو الفاظ کی پوسٹ ہوجائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک دوست کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کی اپنی ایک کلا س اور مخصوص حلقہ ہے، آپ اس کا جب حصہ بنیں، تب لطف بھی زیادہ آتا ہے اور فالو کرنے والوں کی تعداد میںاضافہ بھی ہوجائے گا۔ ایسا ہی ہوگا، مگر ہم جیسے نوواردان بساط کو سیکھنا پڑے گا۔ اپنے ٹوئٹرہینڈل(@ahkhakwani)میں دلچسپی لینے کی کوشش کر رہا ہوں، گاہے اچھا بھی لگتا ہے۔ یہ البتہ مجھے لگا کہ ٹوئٹر فوری ردعمل کی چیز ہے۔
کہیں کچھ دیکھا، پڑھا، سوچا، محسوس کیا، اسے فوری ٹوئٹر پر بیان کر دیا۔ فیس بک بھی اسی طرح استعمال ہوتی ہے، مگر اس میں کچھ گنجائش، سپیس موجود رہتی ہے۔کسی پوسٹ پر اگلے کئی دنوں تک دلچسپی برقرار رہتی ہے، اس دوران اوریجنل تحریر میں اضافہ، کمی بھی ہوسکتی ہے۔فیس بک کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لنک دینے کے بجائے کاپی، پیسٹ کے ذریعے آپ اپنا یا کسی اور کا کوئی کالم، دیگر تحاریر اپنے فرینڈز کو پڑھا سکتے ہیں۔
ٹوئٹر پر البتہ صرف لنک ہی دیا جا سکتا ہے کہ 140 الفاظ کی شرط دامن گیرہے۔
فیس بک گروپس کی صورت میں ایک الگ آپشن موجود ہے۔ فیس بک کی دنیامیں بے شمار گروپس موجود ہیں۔ لوگوں نے اپنی دلچسپیوں ، مشاغل اور میلان کے حساب سے مختلف فیس بک گروپ بنا رکھے ہیں، ان میں سے کچھ کلوزگروپ ہیں جن کا ممبر گروپ ایڈمنز کی مرضی کے بغیر بنناممکن نہیں، تاہم بہت سے گروپس میں ممبرشپ کی پابندی نہیں۔ہر قسم کی بحثوں، گفتگو اور علمی استفادے کے لئے گروپ موجود ہے۔ خاکسار بھی بعض گروپوں کا رکن ہے۔ کہیں خود جاناہوا تو بعض اوقات مختلف دوستوں کے ساتھ تعلق یا لحاظ کی وجہ سے بھی گروپ میں رہنا پڑتا ہے۔
وہ گروپ چھوڑ دیں تو پھر یہ باتیں ہونے لگتی ہیں کہ فلاں نے کیوں چھوڑا؟اسی خدشے کے باعث کچھ لوگ گروپ نہیں چھوڑتے مگر اس میں دلچسپی بھی نہیں لیتے۔ نوٹیفکیشن بند کردیتے ہیں، فالو نہیں کرتے اور کبھی جانا بھی ہو تو خاموشی سے کوئی ایک آدھ پوسٹ پڑھی اورکمنٹ، لائیک کئے بغیر چلتے بنے۔
ایک دو گروپوں میں دلچسپ معاملہ رہا ۔ شروع میں تو لوگ ہلکی پھلکی پوسٹیں کرتے رہے۔ گروپ کا مزاج ماڈریٹ، روشن خیال ،غیر مذہبی تھا۔بتدریج وہ لوگ غالب آتے گئے جو خود کو لبرل، سکولر کہلانا پسند کرتے ہیں۔ خیر اس حدتک تو ٹھیک ہے، ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اپنی پسند کی سوچ رکھے۔
لبرل، سیکولرسوچ رکھنے والوں سے کم از کم مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ۔لبرل ازم ہو یا سیکولرازم ، ان کی کچھ نہ کچھ پس منظر، فکری سٹرکچر ہے۔ آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں بلکہ ان کے بیانیہ کے رد میں اپنا موقف بیان کر دیتے ہیں۔ یوں مختلف سوچ رکھنے والے افراد میں مکالمہ شروع ہوتا ہے۔
جب بھی دیانت داری سے ایسا مکالمہ کیا جائے تو پچاس فیصد سے زیادہ تعصبات تو شروع ہی میں ختم ہوجاتے ہیں۔براہ راست مکالمہ یا بحث ہو تو تمام بے بنیاد باتیں دم توڑ جاتی ہیں۔اصل اختلافی نکات سامنے آ جاتے ہیں۔ ان پر پھر بحث مباحثے چلتے رہتے ہیں۔
اس وقت البتہ تکلیف ہوتی ہے جب ایک خاص مذہب بیزار، ملحدسوچ رکھنے والا حلقہ مختلف حیلے بہانوں سے الہامی فکر،مقدس مذہبی شخصیات اور دینی سوچ پر حملہ آور ہو۔
ہمارے ہاں چونکہ خدا کے وجود کو نہ ماننے والے ملحدین کے حوالے سے سماج میں واضح ناپسندیدگی، نفرت موجود ہے۔ اسی لئے ملحدین ڈر کے مارے اپنے دہریہ یا خدا کے وجود کو نہ ماننے کا اقرار نہیں کرتے۔ وہ لبرل ازم ، سیکولرازم کی آڑ لیتے ہیں یاکبھی خود کو تشکیک پسند کہہ ڈالتے ہیں۔
یہ تاثر دیتے ہیں کہ ملحدنہیں ، البتہ ان کا تصور خدا دوسروں سے مختلف ہے یا پھر یہ کہ وہ ابھی شک کی کیفیت سے گزر رہے ہیں اوروجود خداوندی سمیت ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ تشکیک کی یہ کیفیت چونکہ اکثر پڑھنے ، لکھنے والے لوگوں پر زندگی کے کسی نہ کسی فیز میں آئی ہوتی ہے، اس لئے تشکیک پسندوں کے ساتھ اہل مذہب میں ہمدردانہ سوچ پائی جاتی ہے۔ یہ سوچ کر بہت سے پرجوش داعی اپنا قیمتی وقت ان لوگوں کے سوالوں کے جواب دینے میں صرف کرتے ہیں۔ اس لئے کہ شائد ان کی سعی سے کسی کی ذہنی گرہ کھل جائے اور وہ صاحب ایمان ہوجائے۔
افسوس ملحدین، مذہب بیزاروں کا ٹولہ اس سب کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ ان کی سرتوڑ کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کے وجود، رسول اللہ ﷺ کی منور شخصیت ، روز قیامت اور الہامی قوانین کے بارے میں شکوک پیدا کئے جاسکیں۔
انٹرنیٹ نے ملحدین کو ایک منظم شکل دی ہے،رچرڈ ڈاکنسٹ جیسے بدترین ملحدین نے جو فتنہ جگایا تھا، وہ اب زیادہ خطرناک ہوچکا ہے۔ عام مسلمان چونکہ زیادہ باریکیوں ، گہرائی کے ساتھ دین کا علم نہیں رکھتا۔ اسے دینی روایات کے درست، ضعیف ، موضوع ہونے کا علم نہیں۔ علم الکلام جانتا ہے نہ ہی ملحدین کے عقلی حربے ۔ایک اور حرکت یہ کی جاتی ہے کہ مختلف ملحدین کا ٹولہ بیک وقت کسی خاص فیس بک گروپ کا رخ کرتا ہے۔
ان کی دریدہ دہنی کے باعث عام نوجوان جذباتی ہو کر سخت بیانی پر اتر آتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی مل جاتے ہیں جوبعض مذہبی حلقوں یا کسی تنگ نظر مولوی سے نالاں ہو کرخود پوری مذہبی فکر سے دور ہوچکے ہوتے ہیں۔
ملحدین کا سب سے آسان شکار یہی ہیں۔ ادھر غلام احمد پرویز کے متاثرین منکرین حدیث کا حلقہ اگرچہ بہت سکڑ چکا ہے، مگر بہرحال وہ بھی اپنا پورا وزن ملحدین کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ فیس بک کی دنیا میں یہ ایک باقاعدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے گریز نہیں کر سکتے۔
ملحدین ہر جگہ ، ہر گروپ میں وجود خداوندی پر بحث چھیڑ دیں گے۔ گروپ فلموں کا ہے یا سپورٹس، گپ شپ فورم ہے یا ادبی تحریروں کا ، چند ایک لوگ وہاں کسی نہ کسی حیلے سے یہی بحثیں شروع کریں گے، اس پر ردعمل ہوگا، دوچار بلاک ہوجائیں گے، تلخی پیدا ہوگی،مگر رویے نہیں بدلے جائیں گے۔
اگلے روزایک گروپ میں امریکہ میں مقیم پاکستانی نژادخاتون ڈاکٹر کی تحریر پڑھی۔
ڈاکٹر صاحبہ رواں اردو میں بلاگ لکھتی رہتی ہیں، طبی موضوعات پر دلچسپ لکھتی ہیں، ایک معروف ویب سائٹ میں ان کے بلاگ شائع ہوتے ہیں۔ اس تحریر میں ڈاکٹر صاحبہ نے خواتین کو تلقین کی کہ چونکہ مردوں نے تمام مذہبی وغیر مذہبی قوانین بنائے ہیں، دنیا کے قاعدے ، ضابطے بھی یہی بنانے والے ہیں۔ اب مگر زمانہ بدل گیا ہے، عورتیں خوشحال بھی ہیں اور اب انہیں مردوں کی ضرورت بھی نہیں رہی۔
ایک ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ جنسی اعتبار سے بھی خواتین کو مردوں کی ضرورت نہیں رہی، بچے بھی وہ سپرم بینک سے سپرم لے کر پیدا کر سکتی ہیں۔ اس لئے ان منحوسوں (مردوں)پر تین حرف بھیج کر مزے سے شادمان زندگی گزاریں، وغیرہ وغیرہ۔ حیرت سے یہ سب پڑھتا رہا کہ اچھی بھلی پڑھی لکھی خاتون ہیں، اس بی بی کو ہو کیا گیا ہے؟اتنے زیادہ سازشی نظریات، بے بنیادمفروضوں سے لبریز بیانیہ کیسے انہیں بھا گیا؟
اصل مسئلہ وہی ہے جو امریکہ کے ہسپتال میں کام کرنے والی اس خاتون ڈاکٹر کو بھی درپیش ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ہم خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا پسند کریں گے یا پھر ایسی دنیا جو انسانوں نے بنائی ہے؟یہی فیصلہ ہی آپ کے پورے مائنڈ سیٹ، انداز فکر ، حتیٰ کہ لائف سٹائل کو طے کر دیتا ہے۔ اگر آپ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کا مکین بننا چاہتے ہیں تو پھر خدا کے قوانین ماننے پڑیں گے۔ خدا کا وجود، اس کے آخری پیغمبر رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ اور ان پر اتری شریعت اور سب سے اہم روز آخرت پر یقین۔
اس پر یقین کہ سزا وجزا ہوگی اور ہم مرنے کے بعد زندہ ہوں گے۔ ایسے بدنصیب ہیں، اپنے تمام تر علم ، مطالعے اور مشاہدے کے باوجود خدا کی حقیقت پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔ جنہیں یہ یقین نہیں کہ ہمارا ایک خدا ہے، اسی نے تخلیق کیا اور وہی مرنے کے بعد زندہ کرے گا، روز آخرت ہی حتمی فیصلہ ہوگا اور اس دن جو کامیاب ہوگا، وہی کامران ومسرور ہے۔
وہ پھر طرح طرح کے بیانئے تخلیق کریں گے، کبھی تشکیک کی پناہ لیں گے، کبھی سیکولرازم، لبرل ازم کی آڑ لیں گے۔ مسئلہ ان کا مابعدالطبعیاتی ہے۔ وہ روز آخرت ہی کو جب نہیں مانتے ، تو الہامی قوانین، مذہبی سوچ کو کیسے تسلیم کریںگے؟تو حتمی فیصلہ اسی پرہوتا ہے کہ آپ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا ہدایت کی روشنی سے محروم انسانی عقل پر انحصار کرنے والے گروہ کا رکن؟ان بحثوںمیں کودنے سے پہلے اس سوال کا جواب دے دینا چاہیے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ