نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تیڈے ناویں لاج سبھو، تیڈے ناویں پگ ڈھولنا،محمود مہے

اب شاعر ہی وہ کردار بچا ہے جو اس کرہ ارض کو بچا سکتا ہے ،شاعر ہی اس رابطے کو بحال کر سکتا ہے جو انسانی وحشت سے کہیں منقطع ہو گیا تھا

زندگی، جو طلوع و غروب آفتاب کے درمیان کسی لمحے کو جینے کا نام ہے، لیکن ہم اتنی بے دلی سے جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں ، مر جانا جس کو صوفی نے وصال کہہ کر وحشت کو قدرے کم کیا لیکن موت دکھ ہے، بلکہ تمام دکھ ہے۔ سوریا کے غروب سے اس تمام دکھ کے درمیان کچھ پل ایسے ہوتے ہیں جن میں جیون اپنے پورے جوبن کے ساتھ سولہ سنگھار کرکے ساری سماجی پہرہ داری کی گھٹن میں بھی چپکے سے خوشی کا مکھن چرا کر گوپیوں کے ساتھ مل کر من کے بیلے میں اس طرح سے محو رقص ہوتا ہے کہ وقت اپنی چال بھول جاتا ہے۔


ایسی ہی الوہی مستی کی رات وسوں کے مقدس تھل کے ویہڑے میں اتری ، جب روہ کی ہیبت ، روہی کا رومانس ، دمان کی کرہیہ ، کٹے ہوئے گلوں والے سارنگ ، ازلی مونجھ کی ماری کونج ، جدا ہوئے ہنس ، جنسی زیادتی کا شکار اندھی بلہن ( ڈولفن) سندھو کے جیون دیوتا، ویاس جی یعنی مرشد اشو لال کے چرن چھونے آئے تھے ۔
قسم ہے عاشق دیوانہ کے اونچے سر کی ، کامران شوکت کی بانسری کے دکھ کی جو اپنے اصل سے جدا ہو کر مسلسل ہجر کے کرب میں ہے ، منیر غنی شیخ کے اس بیان کی جس نے ہجرت کے دکھ کی کتھا سنا کر ہر آنکھ کو نمناک کر دیا، شاہ نشاط کی موجودگی کی جو اتم گواہی ہے ، یہ رات صرف رات نا تھی بلکہ نئے سماجی معاہدے کا آغاز تھا ، ایسا معاہدہ جس میں پہلی بار اس کرہ ارض پر بسنے والی تمام مخلوقات نے ایک شاعر کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا ، وہ شاعر جس کے ساتھ وسوں کے ہر ایک چرند پرند درخت پکھی جانور نے انسانی خوف سے آزاد ہو کر مکالمہ کیا تھا اور ازلی سچ کو سچ ثابت کیا کہ
"دنیا اج وی شاعر دا اتبار کریندی ہے”
اب شاعر ہی وہ کردار بچا ہے جو اس کرہ ارض کو بچا سکتا ہے ،شاعر ہی اس رابطے کو بحال کر سکتا ہے جو انسانی وحشت سے کہیں منقطع ہو گیا تھا ، شاعر کی شاعری ہی وہ آخری آماجگاہ بن سکتی ہے جہاں پر تمام مخلوقات ایک دوسرے سے بات کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں اور وہ جائے پناہ اشو لال کی شاعری ہے ، کیوں کہ یہ وہ واحد اشرف ہے جو ذات کے اوچ سے اتر کر دھویں دار فقیر ہوا ہے اشو لال فقیر ہوا ہے تب جا کے پوری فطرت ان کے ساتھ ہمکلام ہوئی ہے دریا الایا ہے
ندی مردی ہے تاں سنڑ مترا
دل مردا ہے روح مردی ہے
جوڑا ہنساں دا ہک نہیں مردا
پورے دریا دی کھل مردی ہے

ملتان الایا ہے
ایں پرہلاد دی ڈھیری تو
اوں مایا جوگ دے مندر تئیں
ایں گوڈری نال کبوتراں دے
کتھاں رہ گئی ہے کندھی راوی دی،
ایں ہنو مان دے پپل تے
آپیں ڈیکھ گھنو گاں ٹنگی ہوئی

شینھ آلایا ہے
چھڑا شینھ نہیں مردا بیلے دا
بیلے نال مرہیں دے راج پچھوں
وسوں راہندی نئیں وسوں نال اپنڑے
جھل نال اپنڑے جھل راہندی نئیں۔

سارنگ آلایا ہے
اینویں کل دی گال اے بیلے وچ
سوہنڑے سنگھ اپنڑے لشکا نچدے
ست اٹھ ہوسوں نئیں یاد پوندا
نئیں یاد پوندا نوں ڈاہ ہوسوں
منڑ اپنڑی تے سوہنڑاں سندھ سائیں
اتھا آنڑ کھڑے جتھاں کسنڑا ہا۔

بلہن آلائی ہے
اکھیں ڈے کے وی اساں اندھیاں کوں
افلاک تیئں سب ڈسدا ہے
ماء ڈسدی ہے تیڈی شکل وچوں
تیڈی شکل وچوں رب ڈسدا ہے۔

ہنس آلایا ہے
ایویں کل دی گال ہے بیلے وچ
ودے کھیڈدے ہاسے چندر تلے
گچیاں مونڈھے سٹ کے پانڑیاں تے
ادھے جاگدے ہوئے ادھے ستے ہوئے
وڈے ویلے دی انوں بانگ ملی
انوں سب دے سب اساں مارے گئے
میرا ایمان ہے ہنس ،سارنگ ، بلہن شینھ دریا کا اپنے شاعر سے کلام کرنے کا مقصد اپنے ساتھ ہوئے تمام ظلم کو بھلا کر اس کرہ ارض پر پھر سے ساتھ بسنے کی سعی ہے اور وہ صرف سندھو کے ویاس جی اشو لال کو ہی ضامن بنانا چاہتے ہیں اس معاہدے کا ،وہ پھر سے انسان سے کلام کرنا چاہتے ہیں دوئی ہجر ختم کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ اسی دوئی کی وجہ سے
لکھاں سالاں باد وی کتنا تھوڑا ہے
جتنا ہووئے جیونڑ پورا ہوندا نئیں۔
اس جیون کے نئے معاہدے پر میں اپنے دستخط کر آیا ہوں جے یار فرید قبول کرے۔

About The Author