ڈیڑھ سطری ای میل کرنے والے زبیر خان بنگش نے فقط یہی دریافت کیا ہے کہ
” شاہ جی برسوں سے آپ کے کالم پڑھتا ہوں یہ بتا دیجئے کہ فقیر راحموں کون ہے”؟۔
اس سوال پر بڑی دیر تک ہنستا رہا۔
یادوں نے د ستک دی
قیام پشاور کے برسوں میں سے کسی ایک دن کی بات ہے مردان کے کسی گاوں سے ایک بزرگ نما نوجوان ملاقات کے لئے تشریف لائے بہت محبت سے ملے۔ یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے میوے والے گڑ کی ایک چھوٹی سی ٹوکری بھی تحفہ میں دی تھی۔
میزبان اور مہمان قہوہ کا لطف لے چکے تو دریافت کیا کیسے تشریف آوری ہوئی؟۔
مہمان نے بتایا ان کے چچا جان فوج میں ہیں اور ان کی ملتان میں پوسٹنگ ہوئی ہے۔ مجھے بزرگوں کے مزارات پر جانے سے ہمیشہ راحت قلبی ملتی ہے۔
ملتان تو بزرگوں’ پیروں اور صوفیا کا گھر ہے۔ اگلے ہفتے اپنے چچا کے پاس جا رہا ہوں ملتان سے اوچ شریف تک کے بزرگوں کے مزارات پر حاضری دینے کا ارادہ ہے۔
آپ کے پاس اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے کالموں میں ایک بزرگ فقیر راحموں رحمت اللہ علیہ کا بہت ذکر ہوتا ہے ان کا مزار ملتان میں کس جگہ ہے؟
ملتانی بزرگوں کا منشی عبدالرحمن خان اور مولانا نور احمد خان فریدی نے اپنی کتب میں کافی تذکرہ کیا ہے مگر اس میں فقیر راحموں کا ذکر نہیں ہے۔
آپ اگر ان کے مزار اور سلسلہ نسب و طریقت بارے کچھ تفصیل بتا دیں تو شکر گزار ہوں گا اور ان کے مزار پر فاتحہ خوانی بھی کر آوں گا۔
نوجوان بزرگ کی بات جونہی ختم ہوئی میں اور مرحوم سہیل قلندر بے ساختہ ہنس پڑے۔
سہیل قلندر مہمان کے ساتھ ہی میرے کمرے میں آئے تھے کیونکہ وہ نوجوان بزرگ سہیل قلندر کے شناسا تھے۔
مہمان ہمیں ہنستا دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور پھر دریافت کیا ”شاہ جی میں نے کوئی غلط بات کہہ دی؟
قبل اس کے کہ میں بولتا قلندر نے مہمان سے پشتو میں کہا ” فقیر راحموں آپ کے سامنے بیٹھا ہے ان کا اشارہ میری طرف تھا”۔
مہمان نے جواب میں کہا یہ تو شاہ جی ہیں ان کے کالم میں پچھلے کئی برسوں سے پڑھتا ہوں۔ سیاسی کالم بھی اچھے ہوتے ہیں مگر صوفیا کرام کے اقوالوں کی مدد سے لکھے گئے کالموں کا لطف ہی اور ہے۔
وہ اپنی بات کہہ چکے تو میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا۔ میرے عزیز’ سہیل قلندر نے درست کہا ہے’ مزید تصحیح کے ساتھ یہ بتا دیتا ہوں کہ فقیر راحموں میرا قلمی نام ہے۔
مہمان اپنی جگہ سے اٹھے اور ایک بار پھر مجھے گلے لگاتے ہوئے بولے’ شاہ جی میں فقیر راحموں سے مل کر خوش ہوا ہوں۔ اس بار انہوں نے "فقیر راحموں رحمت اللہ علیہ ” نہیں کہا تھا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر پیدا ہونے والے بچوں کو اپنا نام خود رکھنے کا حق حاصل ہوتا تو میں اپنا نام فقیر راحموں ہی رکھتا۔
اپنی زمین کے تاریخ و تہذیب اور مقامیت سے جڑا ہوا نام۔
پتہ نہیں ہمارے والدین مقامی نام رکھنے کی بجائے بدیسی ناموں کا اسلامی نام کے طور پر انتخاب کیوں کرتے ہیں۔
اچھا ہم خود بھی ایسے ہی ہیں بہت سارے کام اور خواہشیں چاہتے ہوئے بھی پوری نہیں کر پاتے۔
مثلاً میں اپنی صاحبزادی کا نام سیدہ راستی یا نور بھری رکھنے کا خواہش مند تھا والدہ محترمہ’ اہلیہ اور دو بھانجیوں نے اس کا نام فاطمہ حیدر رکھنے پر اصرار کیا مجھے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
اس نام کو نسبت کے ساتھ رکھنے میں جو جذبہ میری والدہ محترمہ ‘ اہلیہ اور بھانجیوں کا تھا اس سے بالکل انکار نہیں پھر بھی گاہے گاہے یہ خیال ذہن و دل پر دستک ضرور دیتا ہے کہ ہم مقامیت سے بھاگتے کیوں ہیں۔
یہی مٹی’ وسیب’ تاریخ و ثقافت ہی تو ہمارا حوالہ ہے۔
بہر طور مجھے امید ہے کہ زبیر خان بنگش کو جواب مل گیا ہوگا اور وہ باقی ماندہ سفر حیات میں کم از کم میرے مردانی مہمان کی طرح فقیر راحموں کو ”رحمتہ اللہ علیہ” سمجھ کر فاتحہ خوانی نہیں کریں گے۔
فقیر راحموں سے شعوری ساتھ کا آغاز سال1972ء سے شروع ہوا۔ تب میں نے ایک اخبار میں شائع ہونے والے بچوں کے صفحہ کے لئے اسی نام سے کہانی لکھ کر بھیجی تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ وہ کہانی ” محنت میں برکت ہے” کے عنوان سے لکھی گئی تھی۔
کہانی اخبار کے صفحہ پر شائع ہوئی تو میں نے اگلے دن اپنے استاد محترم سید عباس نقوی کو خوشی خوشی اخبار دکھایا۔
وہ کہانی پڑھ چکے تو شفقت سے بولے’
صاحبزادے تمہاری کہانی بہت اچھی ہے۔ الفاظ کی بنت اور اظہار یہ دونوں خوبصورت ہیں لیکن سچ پوچھو تو تمہارا قلمی نام مجھے بہت پسند آیا۔
استاد مکرم کی تحسین سے طالب علم کی حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر فقیر راحموں ہماری تحریروں کا حصہ بن گیا۔
بہت عرصہ تک چند ہی لوگ فقیر راحموں کا پس منظر جانتے تھے البتہ میری دو کتابوں ”پورا سچ” اور ” یہ عشق نہیں آساں” میں تعارفی تحریریں لکھتے ہوئے برادر مکرم سید منظر نقوی اور استاد محترم اکرم شیخ نے بھانڈہ پھوڑ دیا۔
اس حوالے سے لکھے گئے دونوں مضا مین مجھ طالب علم کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔
میں بھی فقیر راحموں کے ساتھ خوش رہتا ہوں سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ اس نے مجھے کبھی دنیا دار نہیں بننے دیا۔
اس کے ہمراہ جتنا وقت گزرتا ہے وہ خوب گزرتا ہے ہم بہت ساری باتیں کر لیتے ہیں اوراق پھرول لیتے ہیں’ یادیں تازہ کرتے ہیں ‘
وہ میرا محاسبہ بھی کرتا رہتا ہے’ اس کی وجہ سے ہمیشہ بالا دستوں’ مقامیت سے بعض رکھنے والے پدرم سلطان بود طبقات’ ریاستی جبرو ستم بارے کھلی رائے بنانے اور اظہار کا حوصلہ ملتا ہے۔
پچھلی شب بھی ہم نے اس پر خوب بحث کی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان اپنے اصل سے کٹ کر جینے کو طرم خانی سمجھتے ہیں اور مقامیت کو کوئی خلاف اسلام قسم کی چیز؟۔
قصہ مختصر یہ کہ عملی دنیا ہے یا قید و بند میں گزرے ماہ و سال ہر د و جگہ اس کے ساتھ رہنے سے بہت توانائی ملی۔
اسی توانائی کی بدولت کبھی حملہ آور لشکروں کی محبت کا اندھا اسیر ہوا نہ حملہ آوروں کو مقامی آدمی کا ہیرو اور مسیحا سمجھا۔
یہ بھی سچ ہے کہ کبھی کبھی حالات کے جبر سے گھبرایا ہوا جو بات خود نہیں کہ پاتا وہ فقیر راحموں کے کھاتے میں ڈال دیتا ہوں۔
مجھے یاد آیا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کاٹی قید کا جو عرصہ لاہور کے شاہی قلعہ میں بھگتا وہاں میرے تفتیشی بار بار مجھ سے یہ سوال کرتے تھے” یہ تمہیں ہندووں سے اتنی محبت کیوں ہے کہ خود کو فقیر راحموں کہلواتے ہو؟”
اعلیٰ دماغ تفتیش کاروں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی کرتا تھا جو مقامیت سے محبت کو سمجھ نہیں پاتے تھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر