نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا،عمران خان اور سیاست۔۔۔ رانامحبوب اختر

انیسویں صدی کے نصف آخر میں انگریز سامراج کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلم ہندوستان نے علی گڑھ اور دیو بند کی صورت صف بندی کی۔

پاکستانی سیاست ایک بے معنی سرکس ہے۔Comedy of the Absurd ہے.یہاں راہداری کھول کر سکھ بھائیوں کی دعائیں لی جاتی ہیں اور اپنے گھر میں اقلیتوں، غریبوں اور زمیں زادوں کی بد دعائیں۔سکھوں کی خوشی پر ہم شاد ہیں مگر اے خانہ بر انداز_ چمن کچھ تو ادھر بھی !!سیاست سے عوامی مفاد غائب ہے مگرعوامی فلاحی ریاست کے بغیر ریاست کا بحران ختم ہونے کا نہیں۔ ہمارے ہاں طاقتور اشرافیہ نے مذہب کو ڈھال بنا کر عوام کو غریب اور جاہل رکھنے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ اور یہ سب کام قومی سلامتی اور قومی مفاد کے نام پر ہوتا ہے۔شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا!1971 کے المیے سے بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔یاد رکھیں ، عوام کو ریاستی انتظام میں شامل کئے بغیر ریاست بحرانوں کا شکار رہے گی اور فلاحی بیانیے کے بغیر ریاستی بحران کے خاتمے کا خواب عبث ہے ۔ شاعر دنیا کے غیر روایتی قانون ساز ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کو جذبے،خیال اور محبت کی زم زم میں غسل دے کر دیکھتے ہیں ۔یار_ من رفعت عباس کا شعر ریاستی بحران کے حل کا اشارہ دیتا ہے :
اساں مقامی لوکیں کول اے ساری رمز اللہ دی

ساکوں نال ملایاں باجھوں نئیں وچھوڑا مکڑاں

مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کو دسمبر آ رہا ہے ۔کہ ان کے بیانیے سے غربت کو دوام ہے اور وہ غریبوں کے مولا نہیں ہیں۔ وہ مدرسوں کے لاکھوں ” طالبوں” کے مولا ہیں اور "طالب” کی طلب اس جہان سے ماورا رکھنے کے لئے مذہبی بیانیہ اکسیر ہے۔جبکہ ہمارا مسئلہ مذہبی اور اعتقادی نہیں، اقتصادی ہے۔ اسلام میں غریب کی دنیا کو احسن بنانا پہلے اور اخروی نجات اس کے بعد ہے۔مذہبی رہنما قرآنی ترتیب الٹ دیتے ہیں۔ ان کا فوکس آخرت ہے۔ غریبوں کے جہاں میں وقت اور تاریخ رک گئے ہیں:

غریبوں کے جہاں میں وقت بھی رک رک کے چلتا ہے

کبھی صبحیں نہیں ہوتیں کبھی شامیں نہیں ہوتیں

مولانا فضل الرحمان کا تعلق دیو بند سکول سے ہے ۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں انگریز سامراج کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلم ہندوستان نے علی گڑھ اور دیو بند کی صورت صف بندی کی۔علی گڑھ نے ماڈرن ازم اور عقلیت اور دیو بند نے احیائے مذہب کو اپنے response اور بیانیے کی بنیاد بنایا۔ تماشا یہ ہوا کہ پاکستان کی تخلیق ہوئی تو دیو بند والے دو قومی نطریے کے مخالف تھے کہ ان کے نزدیک قوم مذہب سے نہیں وطن سے بنتی ہے۔جبکہ سیکولر علی گڑھ کی فارغ التحصیل اشرافیہ مزہبی بیانیے کا سہارا لے رہی تھی۔یہ سامراجی سیاسی بساط کا کرشمہ تھا کہ خرد کا نام جنوں ہوا۔ اس سے فکری فساد کو دوام ملا اور اشرافیہ نے روٹی کی بجائے نظریے سے لوگوں کا پیٹ بھرنے کا بندوبست کیا جبکہ نظریہ ذہن اور روٹی پیٹ کا وظیفہ ہے۔ کمیونسٹ روس میں نظریے کو روٹی کھا گئی اور کروڑوں لوگوں کے خواب ٹوٹ گئےبابا فرید رح نے کہا :
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹک
جے لبھے نہ چھیواں تے پنجے جاندے مک

ہمیں نظریے کے تحفظ کے لئے روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔مولانا مدرسے کے طالبوں کے لئے روٹی کا انتظام کرتے ہیں اور اسی پر ان کی سیاسی عمارت کھڑی ہے لیکن وہ سارے غریبوں کے لئے روٹی کا انتظام کرنے سے گھبراتے ہیں ۔ قیام _ پاکستان کے بعد علماء دیو بند نے ” پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے کے باوجود ” پاکستان کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ آئینی تقاضوں کے مطابق سیاست کاری کے لئے مدرسے اور مذہب کی بنیاد پر اپنا نام اور مقام بنایا۔ مولانا مفتی محمود صوبہ سرحد( خیبر پختونخواہ) کے وزیر_ اعلی رہے اور ان کے فرزند مولانا فضل الرحمان نے مذہبی بیانیے کو اعتدال آشنا کیا۔وہ ایک اچھے منتظم اور اہل_ مدرسہ کے بڑے لیڈر ہیں ۔آزادی مارچ نے جہاں ان کی تنظیمی صلاحیتوں کو اجاگر کیا ہے وہاں بہ طور مقرر انھوں نے کمالات دکھائے ہیں ۔ لیکن ان کے دل کی بات لوگوں کے دل کی بات نہیں ۔ ان کے بیانیے میں آبادی کو کنٹرول کرنے غربت اور بیماری کو دور کرنے کا کوئی پروگرام شامل نہیں ہے۔ کہ آبادی کے بے ہنگم ہجوم اور غریب لوگ ہی ان کی سیاست کا ایندھن ہیں اور ایک خوشحال پاکستان میں ان کا کردار کم ہو جائے گا۔اس لئے غریبوں کے نالوں سے مولانا کا دل نرم نہیں ہوتا۔عشق و مستی کے امام مولانا روم نے کہا کہ میرے رونے سے پتھر پگھل گئے مگر تیرا دل عجب پتھر ہے کہ میرے نالوں سے بھی نرم نہ ہوا!!!

مولانا کی تحریک، وزیر_ اعظم ، سیاسی اشرافیہ اور طاقت کے مراکز کے لئے wake up کال اور ایک موقع ہے۔ عمران خان سیاست دان کی بجائے ریاست دان( statesman) بن کر اس موقع کو قومی مسائل پر اتفاقرائے پیدا کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ہمارے بنیادی مسائل میں غربت، بیماری،ماحولیاتی آلودگی، عدم برداشت،انتہا پسندی، اداروں کا زوال،غیر متوازن وفاق، ادارہ جاتی عدم توازن، اقتصادی بحران، سیاسی عدم استحکام، امن و امان اور ہمسایہ دشمنی سر فہرست ہیں۔اور ان مسائل کی بنیاد فکری انتشار ہے جس کا ایک نتیجہ منتشر سماج کی طرف سے آبادی میں بے ہنگم اضافہ کی صورت احتجاج ہے۔لوگ بچے پیدا کر کے فریادی پیدا کر رہے جو بالآخر اپنے آقاوں کو کھا جائیں گے فکری انتشار اور آبادی کو کنٹرول نہ کرنے کی بڑی وجہ وہ بیانیہ ہے جس کے رہنما مولانا ہیں۔عوام کا حق_ حکمرانی تو بڑا آئیڈیل ہے مولانا لوگوں کو اپنے وجود پر اختیار دینے کو تیار نہیں۔ عمران خان اور طاقت کے مراکز عوام کو یہ حق دلانے کے لئے مولانا کو آبادی کے بے ہنگم مسئلے کو کنٹرول کرنے کےلئے ایک نئے عمرانی معاہدے اور Grand Concord کا آغاز کر سکتے ہیں۔یہ عظیم مفاہمت درج ذیل نکات پر ہو سکتی ہے:

1)حکومت، مولانا فضل الرحمان اور ان
کے سیاسی اتحادیوں کے ساتھ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے مذاکرات کا آغاز کرے کہ اس وقت پاکستان کو ہندوستان کے ایٹم بم سے زیادہ آبادی بم سے خطرہ ہے۔ بر_صغیر صدیوں سے شرم گاہوں کی قید میں ہے ہمارے جسم ہمارے نہیں۔ ان پر پنڈت کا قبضہ تھا اور خاوند کی موت کے بعد جانور کی طرح عورت ستی ہوتی تھی۔غربت اور جہالت کے کلچر میں انسان کی انسانیت سے انکار پہ سماج کی عمارت کھڑی تھی۔اسلام تعقل، تدبر اور تفکر پر زور دیتا ہے مگر اہل _ مدرسہ عقل کا گلہ گھونٹتے ہیں کہ فکری آزادی کے لئے خوشحالی ضروری ہوتی ہے اور ایک خوشحال آدمی ہی اپنی آئندہ نسلوں کے لئے بہتر منصوبہ بندی کر سکتا ہے
2) پاکستانی ریاست لوگوں کے حق_ حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے زمین زادوں کو کم از کم سکھوں جیسا احترام دے ۔ مزہب، فرقوں اور قومیتوں سے ماورا آئین میں دئیے گئے برابر کے انسانی حقوق دے۔اور عوام کو خوشی اور خوشحالی کی آئینی ضمانت دے
3) پاکستان ایک غیر متوازن وفاق ہے ۔ اسے متوازن وفاق بنانے کے لئے نئے صوبوں کی تشکیل ضروری ہے۔صدر آصف علی نے کچھ عرصہ پہلے میاں نواز شریف کے حوالے سے گریٹر پنجاب کی بات کی تھی ۔مستقبل میں کرتار پور سے ریاست _ پاکستان کے لئے ایک نیا مسئلہ گریٹر پنجاب کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔ نوجوت سدھو کا یہ کہنا کہ 14 کروڑ سکھ عمران خان کو بے مثال بنا دیں گے،حقائق کے برعکس ہے کیونکہ پوری دنیا میں سکھوں کی تعداد سوا دو کروڑ سے زیادہ نہیں ہے اور پاکستانی پنجاب کی بارہ کروڑ آبادی کو ملائے بغیر یہ تعداد کسی صورت چودہ کروڑ نہیں بنتی۔ اسے Freudian Slip سمجھ کر غور کرنے کی ضرورت ہے !!!ایسے کسی منصوبے کو روکنے کے لئے سرائیکی وسیب کا صوبہ ناگزیر ہے۔ملتان پاکستان کا مرکز ہے اور اسے مضبوط بنانا پاکستان کو اپنے مرکز سے مضبوط بنا کر حاشیوں یا peripheries پر ہونے والی امکانی شرارتوں کا سد_باب کرنا ہے۔
4) پاکستان کے سول ادارے سامراجی اور extractive ہیں انھیں inclusive بنا کر یکسر بدلنے کی ضروت ہے اور سول ایڈمنسٹریشن کی اصلاحات سامراجی مزاج رکھنے والے افسروں کے بس کی بات نہیں۔عام شہری کے لئے ریاست کا چہرہ تھانیدار اور پٹواری ہیں اور ریاست یہ توقع رکھتی ہے کہ شہری پٹواری اور تھانیدار کی سرپرست ریاست سے پیار کریں۔لوگ اپنی اور اچھی حکومت کے راستے ریاست کو دلوں میں بساتے ہیں !!
4) ہمارا مسئلہ اقتصادی ہے نظریاتی یا فکری نہیں۔وسیع تر معاشی اصلاحات کے لئے سیاسی اتفاق_رائے پیدا کرنے کو عمران خان کو پہل کرنی چاہئے۔ لیکن ان اصلاحات کا فوکس غریبوں کی فلاح ہونی چاہئے
5) سیاستدانوں کو مقامی حکومت سے چڑ ہے کہ عوام کی فلاح کے لئے عوامی اور مقامی حکومت سیاسی سمراٹوں کو راس نہیں اور فوجی حکمران بھی مقامی حکومتوں کو اپنی legitimacy کے لئے بطور caveat استمعال کرتے رہے ہیں۔ضروری وفاقی اور صوبائی اختیارات کے علاوہ تمام انتظامی اختیارات مقامی لوگوں کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے سوئٹزرلینڈ کا مطالعہ رہنما ہو سکتا ہے یاد رہے سوئٹزرلینڈ فیڈریشن ہے کنفیڈریش نہیں۔

یہ وہ مسائل ہیں جن کے بارے میں سیاسی جماعتیں دوٹوک رہنمائی دینے سے گریزاں رہتی ہیں اور اس کنفیوژن کی بنیادی وجوہات مولانا، مذہبی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا خوف ہے۔ مقتدر اداروں نے مکالمے کو کفر کے فتوے اور خوف کے ہتھیار سے بے معنی بنا دیا ہے اور پنڈت، پادری اور ملا کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے

ملا ہک مشین پرانی حاکم آپ بنڑائی

گوٹھ بزارین لوکاں تانڑیں خوف پچاونڑ کیتے

مولانا کا دھرنا یوں کامیاب رہا کہ ممنوعہ موضوعات پر مکالمے کا آغاز ہوا ہے۔ صد شکر کہ میاں نواز شریف کی زندگی بچ گئی ہے۔سپریم کورٹ طاقت کو قانون کی منطق سے آشنا کر رہی ہے۔ لاہور میں سرخ سویرے کا پھریرا سرفروشی کی تمنا سے لہراتا ہے۔عمران خان کی hubris کو دھچکا لگا ہے اور وہ زمینی حقائق کو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے ہیں۔

مولانا اور عمران خان کیلئے خورشید رضوی کے ایک خوب صورت شعر کے ساتھ دن کا آغاز کرتے ہیں:

یہ عیاں جو آب_ حیات ہے اسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے

About The Author