نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چائے سے چاہ۔۔۔ وجاہت علی عمرانی

بہرحال ایک یخ بستہ موسم، پھر تنہاہی اور لکھنے کا جنون جب ایسی مثلث یکجا ہو جائے تو پھر چائے کے بِنا کچھ بھی نہ لکھ سکتا ہوں،

اپنی جنم بھومی ڈیرہ اسماعیل خان سے دور شہر ِ روزگار میں دسمبر کا شروعاتی ہفتہ۔ یہی وہ دن ہیں ، جب عجیب سی اُداسی اور ویرانی چار سُو پھیل جاتی ہے ، راتیں طویل اور دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں ، شام کے بعد سڑکوں پر سناٹوں کا راج ، شہروں میں جنگلوں کی سی خاموشی اور سرد ہوائیں ہڈیوں میں اترتی محسوس ہوتی ہیں۔ یہی منظر میری نگاہ کے سامنے تھا، شہر ِ روزگار میں کرائے کے مسکن سے ہر چیز کو دھندمیں لپٹا ہوا دیکھ رہا تھا ، آسمان پر بادلوں نے اندھیر نگری مچائی ہوئی تھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے ابھی جل تھل شروع ہو جائے گا اور آنا فانا پھر سے بارش کا سلسہ شروع ہو جائے گا ۔کیسی بات ہے جب آپ بلکل خاموش ہوں تنہا ہوں آپ کے ساتھ کوئی نہ ہو کمرہ بالکل خاموش ہواور تنہائی کا جیتا جاگتا احساس ہو، ہیٹر سے کمرہ گرم ہو رہا ہو جذبات بھی خاموش ہوں تو صرف ایک ہی چیز آ پ کے من کو تازگی بخش سکتی ہے اور وہ ہے چائے جو آپ کے من کو نئی تازگی بخشتی ہے اور ایک خوشگوار احساس پھر سے تازہ ہو جاتا ہے چہرہ چمک اٹھتا ہے۔

بچپن ہی سے یہی عادت ورثے میں ملی، جب سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں گرم چادر اوڑھے انگیٹھی میں دہکتے کوئلوں پر ہاتھ سینکتے اکثر ماں گرم گرم بھاپ اڑاتی چائے کی پیالی جب ہاتھ میں تھماتیں تو روح میں تازگی بھرا احساس جنم لے لیا کرتا تھا۔ ماں سے ان کے ماضی کے دلچسپ تجسس سے بھرپور قصے، والد مرحوم کی باتیں و یادیں، شعر و سخن، قلم و کتاب سے محبت کا درس، زندگی گزارنے کے اصول ضوابط سنتے، ماں کی چاہ سے لبریز کڑک چائے سے لطف اندوز ہوا کرتا۔ پتہ ہی نہیں چلتا کب پیالی ختم ہوئی اور کب ماں کی ممتا بھری باتوں نے نیند کی آغوش میں پہنچا دیا اور کس نے اپنے بازؤں کے محبت بھرے حصار میں اٹھا کر گرم بستر پہ سُلا کر گرم رضائی اوڑھا دی۔

بہرحال ایک یخ بستہ موسم، پھر تنہاہی اور لکھنے کا جنون جب ایسی مثلث یکجا ہو جائے تو پھر چائے کے بِنا کچھ بھی نہ لکھ سکتا ہوں، نہ سوچ سکتا ہوں یعنی میری تخلیقی صلاحیت ساکت ہو جاتی ہے ۔ چاہے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں مگر میں تو یہی جانتا ہوں کہ بغیر پٹرول کے گاڑی اور بغییر چائے کے لکھاری کبھی چل ہی نہیں سکتے۔ جب بھی کچھ لکھنے پہ طبعیت آمادہ ہو یا جب میرے اندر کچھ نیا تخلیق پانے لگتا ہے تو میں باورچی خانے کا رخ کرتا ہوں۔۔ وجہ ۔۔۔ میں چائے کو بھی اسی اہتمام سے تیار کرتا ہوں جس اہتمام سے کاغذ قلم سے قرطاس پر کچھ نیا رنگ بکھیرنے لگتا ہوں.چائے کے کھولتے ہوئے پانی میں مجھے انسانی جذبات کی سسک محسوس ہوتی ہے. اس تپش کو میں پتیلی سے نکلتی بھاپ میں محسوس کرتا ہوں. خشک پتی کی سوندھی خوشبو میں تخیل کے بادل بننے لگتے ہیں. دودھ اور کھولتے قہوے سے ایک نیا رنگ جانے کتنے رنگوں کو جنم دینے لگتا ہے. اور پھر پوے سے اس چائے کو پھینٹنے کے عمل سے گذارتے ہوئے کتنے ہی بدن باہم رقص بکھیرتے پتیلی میں بکھرتے چلے جاتے ہیں.چولھا بند کرنے کے بعد چند لمحوں کے دم پر کسی نرتکی کے پاؤں جیسے تھم سے جاتے ہیں, اس کی پھولی سانسیں, وجود انسانی کے زیروبم اس خاموش پتیلی میں اترتے دکھائی دیتے ہیں.اور جب چائے پک کر تیار ہوتی ہے, ایک تخلیق بھی پک کر تیار ہوچکی ہوتی ہے.

یاد رکھیئے لکھاری اور چائے، ان دونوں میں ایک روحانی رشتہ ہے، لکھاری جب چائے کے بارے میں سوچتا ہے تو آس پاس کی زندگی کے فلسفے کو سمجھنے کا پہلا پڑاؤ ثابت ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی دوسرا رشتہ لکھاری اور قاری کا ہوتا ہے. کچھ قاری ایسے ہوتے ہیں کہ کتاب پڑھتے اگر چائے کی چسکیاں نہ لیں تو انہیں پڑھنے کی چَس ہی نہیں آتی۔ کسی بھی لکھاری کے جذبات چائے کی رنگت اور اس کی مٹھاس کی مقدار کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں۔تیز پتی کی چائے قلم میں تیزی اور حلاوت گھول دیتی ہے،جبکہ میٹھا اس کے قلم سے نکلنے والے لفظوں میں چاشنی کی صورت جھلکتا ہے۔ مطلب، بھاپ اڑاتی چائے کا کپ قلم کو چلانے کے لیے پٹرول کا سا کام کرتا ہے۔ ویسے اس دنیا میں کچھ انسانوں کا کچھ لوگوں اور کچھ مشاغل سے رشتہ بھی پیالی بھر ہوتا ہے، جب تک پیالی میں یہ پگھلا ہوا سونا ہے، وہ ماحول وہ کیفیات قائم رہتی ہیں، جب چاۓ ختم تو وہ سترنگا بلبلہ بھی پھوٹ جاتا ہے، جس میں وہ مقید ہوتے ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے کہ کوئی بھی لکھاری جواپنے جذبات کو الفاظ کا جامہ بہت خوبصورتی سے پہناتا ہے اس میں بہت حد تک چائے کا دخل ہوتا ہے۔ لکھاری کے لیے لکھنے کے دوران چائے کا کپ ایک معجزے کا کام دیتا ہے جس سے ذہن میں عمدہ خیالات اُمڈ آتے ہیں – لکھاری کے لیے چائے اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی پانی کی اہمیت ہماری زندگی میں ہے-میری خالصتا زاتی رائے ہے کہ کسی بھی لکھاری کا اسکا پہلا اور آخری عشق، قلم ، کتاب اور چائے ہی سے ہوتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کسی زمانے میں لکھاریوں کو مئے سے عشق تھا۔ ماضی کے ادب کی ہر صنف میں آپکو مئے ہی کا زکر ملے گا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے فرنگیوں کا جو برصغیر میں سید المشروبات چائے کو روشناس کرا کے مئے سے چھٹکارا دلایا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب مئے کی جگہ چائے کو شاعری میں اہمیت حاصل ہے-مئے یعنی شراب کی جگہ چائے پر شاعری اور نثر لکھی جاتی ہے۔

یہ دنیا بے ادب سی ہے یہاں بدذوق جیتے ہیں
سنہری چاند کی کھڑکی میں آٶ چائے پیتے ہیں

یہ میرا زاتی مشاہدہ ہے کہ چاٸے کی مٹھاس اور لفظوں کی مٹھاس انسان کو قدآور بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ کیا بار بار لکھاری اور چائے کی رٹ لگا رکھی ہے، کوئی ایک مثال تو دو۔ اس کی بہترین مثال لاہور کا چائے خانہ ہے جو پاک ٹی ہاوس کے نام سے جانا جاتا ہے جسے فنون لطیفہ سے منسلک معززین بطور بیٹھک استعمال کیا کرتے تھے۔ پاک ٹی ہاوس کو رونق بخشنے والی سینکڑوں علمی و فکری اور ادبی و تخلیقی شخصیات ہیں۔ وہ منظر بھی کیا خوب ہوتا ہوگا جب چائے کی پیالیاں ان تخلیق کاروں کے سامنے پیش کی جاتی ہوں گی اور وہیں بیٹھ کر چائے نوش کرتے ہوں گے، وہیں سے اردو ادب نے معراج کی کتنی منازل طے کی ہیں۔ اپنے ڈیرہ اسماعیل خان ہی کی مثال لے لیں۔ بیٹھک ہو یا جمیل کا ہوٹل، گول ہوٹل ہو یا کالے کا ہوٹل آپ کو شام کے ڈحلتے سائیوں میں ڈیرہ کے تمام لکھاریوں کی کہکشاں اپنی کرنیں بکھیرتی نظر آئیں گی۔ ان چائے کے ہوٹلوں پر کھل کہ نظریاتی بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے اور علمی اور ادبی کاموں پر تنقید و توصیف بھی ہوتی ہے اور مستقبل کی ادبی محفلوں کا پروگرام بھی ترتیب پاتا ہے۔ اب اللہ جانے کہ چائے کے پیسے دینے کا کیا سلسلہ ہوتا ہے۔ نقد ہوتا ہے یا ادھار ؟ یہ تو ثناء اللہ شمیم صاحب، خوشحال ناظر یا طاہر شیرازی صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ بہرحال کسی بھی قسم کے لکھاری کو گھر پر یا ہوٹل کی میز پر رکھی چائے کسی دلفریب گلدستہ کی مانند لگتی ہے۔جس کی خوشبو اس کے رگ و پہ میں اتر جاتی ہے۔خدا کرے چائے اور لکھاری کا ساتھ تادم آخر قائم و دائم رہے اور “چائے سے چاہ“ اور “چاہ سے چائے“ کا سلسلہ جاری رہے۔

اکثر اوقات یوں ہوتا ہے کہ لکھاری کا رواں قلم چلتے چلتے اڑیل گھوڑی سا اڑی کرنے لگتا ہے تو زہن پہ گرد کے ہیولے چھا جاتے ہیں اور کچھ سجھائی نہی دیتا۔۔ زرخیز زہن پہ چھائی سستی بھگانے اور تخیل پہ تنے جالوں کے بیچ و بیچ شکار کی مانند اٹکی نیم جان تعمیری سوچوں کو آزادی دلوانے کے لیے خاکستری خوشبو دار گرما گرم چائے کی چھوٹی چھوٹی چسکیاں بھرنا کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔۔ چاہیں تو آزما کے دیکھ لیں۔

چائے بلاشبہ ایک لکھاری کے تخیل کو مہمیز کرتی ہے، اس کا تخیل جب خوشبو اڑاتی چائے کی بھاپ سے گلے ملتا ہے تو کاغذ پر لفظ ایک نئی دھن گنگنانے لگتے ہیں ۔ایک انوکھی اور لاجواب دھن ۔کسی بھی قاری کو جب کتاب کھولتے ایک مسحور کُن خوشبو معطر کرتی ہے اس سے زیادہ اصل خوشبو اس کی فکر ، خیالات، متن اور تحریر کی ہوتی ہے۔ الفاظ و خیالات اورتحریر کی روانی کی ایسی دل آویز خوشبو دل و جاں میں سما جاتی ہے جس کا بیاں لفظوں میں ممکن نہیں۔ کیونکہ جیسےایک لکھاری کے قلم میں موجود روشنائی صاف کاغذ پر لفظوں کی صورت تحریر لکھتی ہے ،وہیں چائے لکھاری کے دل و دماغ میں سوچوں کی روشنائی کا کام سر انجام دیتی ہے اور نت نئے خیالات اس کے خالی ذہن میں بھر دیتی ہے۔ یہی خوشبو ہر لفظ اپنے اندر سمو دیتا ہے اور جب بھی وہ تحریر پڑھنے بیٹھیں تو الفاظ پھر سے خوشبو بکھیرنے لگتے ہیں۔

لکھاری اور چائے کا کپ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں – چائے ایک سوغات بھی ہے اکثر لکھاریوں سے ملاقات ہو تو وہ عقیدت میں چائے جیسے مشروب کو خدمت کے طور پرپیش کرتے ہیں۔ موجودہ دور کے لکھاریوں کے لیے چائے ان کے لیے ایک دیوانگی کی حیثیت رکھتی ہے- اگر ہم جیسے لوگ بھی لکھاریوں سے ملاقات کو جائیں تو وہ بھی چائے جیسے مشروب کو ہم جیسے کی خدمت کے لیے اوّلین ترجیح دیتےہیں۔ میری نظر میں ایسا کوئی لکھاری نہیں جس سے بھی میں ملا ہوں تو اُس نے میزبان کی حیثیت سے مہمان کے لیے چائے نہ رکھی ہو، بعض لکھاری سرے سے چائے ہی نہیں پیتے، اگر شکوہ کیا جائے تو با آواز بلند فرماتے ہیں کہ “ پینا پلانا بُری بات ہے “ مذید فرماتے ہیں کہ ضروری تو نہیں ہر کوئی آپ کی طرح چائے کے نشے میں مبتلا ہو کچھ لوگ اس کی بہن یعنی کافی کے عشق میں بھی تو گرفتار ہو سکتے ہیں۔ پھر ایسی بات کرتے ہیں کہ شرم سے سر ہی جھک جاتا ہے، دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں ۔ عمرانی صاحب! کافی پینے کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اس میں بسکٹ یا رَس ڈبو کر نہیں کھایا جاتا ، یہ چونچلے صرف چائے والے ہی کرتے ہیں۔

اونٹوں کے کاروانوں سے لےکر سیاسی انقلابوں تک، دوستوں کی بیٹھکوں سے ادبی محفلوں تک چائے ہمیشہ انسانوں کی ساتھی رہی ہے۔ چائے کو معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے زندگی چاہے کٹھن راستوں پر گامزن ہو یا پھر خوشیوں کے ہنڈولے جھول رہی ہو۔ زندگی کے کٹھن راستے سےکیسے باہر نکلا جائے یا پھر خوشیوں سے کیسے لطف اندوز ہوا جائے اس بات پر غور و خوض کے لئے بڑے اہتمام سے چائے کی میز سجائی جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کے اہم معاملات ہوں یا پھر وطن عزیز کے اہم امور کے فیصلے ہوں انھیں باہمی مشورہ سے چائے کی میز پر ہی حل کیا جاتا ہے۔ اور تو اور بخار ہو یا سر درد، برسات کا موسم ہو یا سردیوں کی شامیں، گرمی کا زور ہو یا اندرونی گرمی، امتحانات میں راتوں کو جاگنے کے لیے نیند بھگانی ہو یا لکھنے کے لیے تخیل کی ضرورت ہو یا تھکن مٹانی ہو چائے کا ایک کپ ہی کافی ہوتا ہے_

اگر آپ اس مضمون کے قاری ہیں تو کبھی چائے کا ایک کپ لے کر تنہائی میں بیٹھیے اور پرانی یادوں کو ذہن میں تازہ کیجئے اچھے دوستوں کو یاد کیجئے، خوشگوار لمحات کو یاد کیجئے، چند لمحات اپنے ساتھ جی لینے سے آپ کواپنی زندگی میں میں نیا جوش اورولولہ محسوس ہوگا۔اور زندگی کی گہماگہمی میں اپنی روزمرہ معمولات زندگی میں تازہ دم ہو کر واپس آئیں گے۔ بقول عبداللہ یذدانی صاحب کے کہ چائے کو شڑپ سے یا آواز نکال کر پینے سے اس کے ذائقہ کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ تو ہو جائے ایک پیالی شڑپ کے ساتھ !

چھوڑو کیا رکھا ہے دل کی بچگانہ باتوں میں
آؤ چائے پیتے ہیں سردیوں کی شاموں میں

یہ میرا زاتی مشاہدہ ہے کہ چاٸے کی مٹھاس اور لفظوں کی مٹھاس انسان کو قدآور بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ کیا بار بار لکھاری اور چائے کی رٹ لگا رکھی ہے، کوئی ایک مثال تو دو۔ اس کی بہترین مثال لاہور کا چائے خانہ ہے جو پاک ٹی ہاوس کے نام سے جانا جاتا ہے جسے فنون لطیفہ سے منسلک معززین بطور بیٹھک استعمال کیا کرتے تھے۔ پاک ٹی ہاوس کو رونق بخشنے والی سینکڑوں علمی و فکری اور ادبی و تخلیقی شخصیات ہیں۔ وہ منظر بھی کیا خوب ہوتا ہوگا جب چائے کی پیالیاں ان تخلیق کاروں کے سامنے پیش کی جاتی ہوں گی اور وہیں بیٹھ کر چائے نوش کرتے ہوں گے، وہیں سے اردو ادب نے معراج کی کتنی منازل طے کی ہیں۔ اپنے ڈیرہ اسماعیل خان ہی کی مثال لے لیں۔ بیٹھک ہو یا جمیل کا ہوٹل، گول ہوٹل ہو یا کالے کا ہوٹل آپ کو شام کے ڈحلتے سائیوں میں ڈیرہ کے تمام لکھاریوں کی کہکشاں اپنی کرنیں بکھیرتی نظر آئیں گی۔ ان چائے کے ہوٹلوں پر کھل کہ نظریاتی بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے اور علمی اور ادبی کاموں پر تنقید و توصیف بھی ہوتی ہے اور مستقبل کی ادبی محفلوں کا پروگرام بھی ترتیب پاتا ہے۔ اب اللہ جانے کہ چائے کے پیسے دینے کا کیا سلسلہ ہوتا ہے۔ نقد ہوتا ہے یا ادھار ؟ یہ تو ثناء اللہ شمیم صاحب، خوشحال ناظر یا طاہر شیرازی صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ بہرحال کسی بھی قسم کے لکھاری کو گھر پر یا ہوٹل کی میز پر رکھی چائے کسی دلفریب گلدستہ کی مانند لگتی ہے۔جس کی خوشبو اس کے رگ و پہ میں اتر جاتی ہے۔خدا کرے چائے اور لکھاری کا ساتھ تادم آخر قائم و دائم رہے اور “چائے سے چاہ“ اور “چاہ سے چائے“ کا سلسلہ جاری رہے۔

اکثر اوقات یوں ہوتا ہے کہ لکھاری کا رواں قلم چلتے چلتے اڑیل گھوڑی سا اڑی کرنے لگتا ہے تو زہن پہ گرد کے ہیولے چھا جاتے ہیں اور کچھ سجھائی نہی دیتا۔۔ زرخیز زہن پہ چھائی سستی بھگانے اور تخیل پہ تنے جالوں کے بیچ و بیچ شکار کی مانند اٹکی نیم جان تعمیری سوچوں کو آزادی دلوانے کے لیے خاکستری خوشبو دار گرما گرم چائے کی چھوٹی چھوٹی چسکیاں بھرنا کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔۔ چاہیں تو آزما کے دیکھ لیں۔

چائے بلاشبہ ایک لکھاری کے تخیل کو مہمیز کرتی ہے، اس کا تخیل جب خوشبو اڑاتی چائے کی بھاپ سے گلے ملتا ہے تو کاغذ پر لفظ ایک نئی دھن گنگنانے لگتے ہیں ۔ایک انوکھی اور لاجواب دھن ۔کسی بھی قاری کو جب کتاب کھولتے ایک مسحور کُن خوشبو معطر کرتی ہے اس سے زیادہ اصل خوشبو اس کی فکر ، خیالات، متن اور تحریر کی ہوتی ہے۔ الفاظ و خیالات اورتحریر کی روانی کی ایسی دل آویز خوشبو دل و جاں میں سما جاتی ہے جس کا بیاں لفظوں میں ممکن نہیں۔ کیونکہ جیسےایک لکھاری کے قلم میں موجود روشنائی صاف کاغذ پر لفظوں کی صورت تحریر لکھتی ہے ،وہیں چائے لکھاری کے دل و دماغ میں سوچوں کی روشنائی کا کام سر انجام دیتی ہے اور نت نئے خیالات اس کے خالی ذہن میں بھر دیتی ہے۔ یہی خوشبو ہر لفظ اپنے اندر سمو دیتا ہے اور جب بھی وہ تحریر پڑھنے بیٹھیں تو الفاظ پھر سے خوشبو بکھیرنے لگتے ہیں۔

لکھاری اور چائے کا کپ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں – چائے ایک سوغات بھی ہے اکثر لکھاریوں سے ملاقات ہو تو وہ عقیدت میں چائے جیسے مشروب کو خدمت کے طور پرپیش کرتے ہیں۔ موجودہ دور کے لکھاریوں کے لیے چائے ان کے لیے ایک دیوانگی کی حیثیت رکھتی ہے- اگر ہم جیسے لوگ بھی لکھاریوں سے ملاقات کو جائیں تو وہ بھی چائے جیسے مشروب کو ہم جیسے کی خدمت کے لیے اوّلین ترجیح دیتےہیں۔ میری نظر میں ایسا کوئی لکھاری نہیں جس سے بھی میں ملا ہوں تو اُس نے میزبان کی حیثیت سے مہمان کے لیے چائے نہ رکھی ہو، بعض لکھاری سرے سے چائے ہی نہیں پیتے، اگر شکوہ کیا جائے تو با آواز بلند فرماتے ہیں کہ “ پینا پلانا بُری بات ہے “ مذید فرماتے ہیں کہ ضروری تو نہیں ہر کوئی آپ کی طرح چائے کے نشے میں مبتلا ہو کچھ لوگ اس کی بہن یعنی کافی کے عشق میں بھی تو گرفتار ہو سکتے ہیں۔ پھر ایسی بات کرتے ہیں کہ شرم سے سر ہی جھک جاتا ہے، دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں ۔ عمرانی صاحب! کافی پینے کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اس میں بسکٹ یا رَس ڈبو کر نہیں کھایا جاتا ، یہ چونچلے صرف چائے والے ہی کرتے ہیں۔

اونٹوں کے کاروانوں سے لےکر سیاسی انقلابوں تک، دوستوں کی بیٹھکوں سے ادبی محفلوں تک چائے ہمیشہ انسانوں کی ساتھی رہی ہے۔ چائے کو معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے زندگی چاہے کٹھن راستوں پر گامزن ہو یا پھر خوشیوں کے ہنڈولے جھول رہی ہو۔ زندگی کے کٹھن راستے سےکیسے باہر نکلا جائے یا پھر خوشیوں سے کیسے لطف اندوز ہوا جائے اس بات پر غور و خوض کے لئے بڑے اہتمام سے چائے کی میز سجائی جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کے اہم معاملات ہوں یا پھر وطن عزیز کے اہم امور کے فیصلے ہوں انھیں باہمی مشورہ سے چائے کی میز پر ہی حل کیا جاتا ہے۔ اور تو اور بخار ہو یا سر درد، برسات کا موسم ہو یا سردیوں کی شامیں، گرمی کا زور ہو یا اندرونی گرمی، امتحانات میں راتوں کو جاگنے کے لیے نیند بھگانی ہو یا لکھنے کے لیے تخیل کی ضرورت ہو یا تھکن مٹانی ہو چائے کا ایک کپ ہی کافی ہوتا ہے_

اگر آپ اس مضمون کے قاری ہیں تو کبھی چائے کا ایک کپ لے کر تنہائی میں بیٹھیے اور پرانی یادوں کو ذہن میں تازہ کیجئے اچھے دوستوں کو یاد کیجئے، خوشگوار لمحات کو یاد کیجئے، چند لمحات اپنے ساتھ جی لینے سے آپ کواپنی زندگی میں میں نیا جوش اورولولہ محسوس ہوگا۔اور زندگی کی گہماگہمی میں اپنی روزمرہ معمولات زندگی میں تازہ دم ہو کر واپس آئیں گے۔ بقول عبداللہ یذدانی صاحب کے کہ چائے کو شڑپ سے یا آواز نکال کر پینے سے اس کے ذائقہ کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ تو ہو جائے ایک پیالی شڑپ کے ساتھ !

چھوڑو کیا رکھا ہے دل کی بچگانہ باتوں میں
آؤ چائے پیتے ہیں سردیوں کی شاموں میں

About The Author