ایف آئی اے کے رخصت پر بھیجے گئے سربراہ بشیر میمن مدت ملازمت پوری ہونے سے دس بارہ دن قبل مستعفی ہوگئے۔
اور اب ان کی ایمانداری’ فرض شناسی’ اقدار کے احترام اور قانون پسندی کے ڈنکے بجائے جارہے ہیں۔
وفاقی حکومت نے ان کی جگہ پانامہ والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ایف آئی اے کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ واجد ضیاء بھی ایک حلقے کے نزدیک بڑے فرض شناس’ بااصول اور قانون پسند ہیں۔
نواز شریف کیخلاف پانامہ کیس کی تحقیقات میں دس والیم پر مشتمل ثبوت ”جمع” کرنیوالے واجد ضیاء اب ریلوے کی بجائے ایف آئی اے کو دیکھیں گے۔
اللہ جانے وہ کب یہ بتا پائیں گے کہ دس والیم پر مشتمل ثبوت وشواہد انہیں کہاں سے ”دان” ہوئے یا ”عطا” ہوئے۔
خیر جانے دیجئے ہم بشیر میمن کی بات کرتے ہیں۔
پولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے بشیر میمن کو 2015ء میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے جعلی اکاؤنٹس والے معاملے کا تحقیقات کار مقررکیا۔ تب چودھری نثار علی خان نے انہیں اپنے دفتر طلب کیا جہاں ایک اور ریاستی محکمے کے سربراہ بھی موجود تھے۔ فائل ان کے حوالے کی گئی اور حکم دیا گیا کہ زرداری اپنے خاندان سمیت اس فائل کا حصہ بننا چاہئے۔
سول سپرمیسی کے پرجوش پرچارک عمر چیمہ کے مطابق ”بشیر میمن زرداری کیخلاف ثبوت کھود کر نکال لائے”۔
کہاں سے یہ کوئی نہیں بتاتا۔
ان کی نگرانی میں جعلی اکاونٹس کی تحقیقات شروع ہوئیں اومنی گروپ نرغے میں بلکہ شکنجے میں آیا۔ ان کے ماتحتوں نے اومنی گروپ کے دفتر پر ریڈ کرتے کرتے کراچی میں یو بی ایل کی ایک برانچ سے اسلحہ برآمد کرلیا۔
اسلحہ کی نمائش بھی ہوئی تشہیر کا سامان بھی پھر ”دانائوں” کو علم ہوا کہ غلط ہوگیا چھاپہ تو اومنی گروپ کے دفتر پر مارنا تھا’
کسی نے آج تک یہ نہیں پوچھا کہ یو بی ایل سے برآمد ہوا وہ اسلحہ کہاں گیا۔
تحقیقات ہوتی رہیں بشیر میمن ثبوت "کھود کھود” کر نکالتے رہے اور کسی عدالت میں پیش کرنے کی بجائے میڈیا کے اس حصے کو فراہم کرتے رہے جو بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی سے دشمنی کی ایک وکھری تاریخ رکھتا ہے۔
بشیر میمن ایماندار ہوں گے لیکن قانون کی حاکمیت سے زیادہ وہ شاہان وقت اور اپنے محسنوں کی خوشنودی کے طلبگار رہے۔
آصف علی زرداری سے اس کی پرانی دشمنی کے قصے کی پتنگ اُڑائی جا رہی ہے۔
کہتے ہیں جب وہ حیدر آباد میں ڈی آئی جی تھے تو کسی بات پر ان کا آصف علی زرداری سے تنازعہ ہوگیا’ زرداری کی اہلیہ اس وقت وزیر اعظم تھیں’ وہ تنازعہ کیاہے؟
سراغ رساں رپورٹرز بتانے سے گریزاں ہیں۔
بشیر میمن کو زیادہ شہرت اس وقت ملی جب ڈیموں والی سرکار بابا جی نے انہیں جعلی اکائونٹس کی تحقیقات کو تیز کرنے کا حکم دیا۔ اصغر خان کیس کے انکوائری آفیسر بھی وہی تھے۔ وہ آصف علی زرداری کیخلاف تو ثبوت کھود کر نکال لائے مگر اصغر خان کیس میں سامنے کے شواہد وثبوت ان سے اوجھل رہے
ممکن ہے نزدیک کی نگاہ کمزور ہو ان کی۔
ان کے ذرائع ( جو کہ ایک ہی میڈیا ہائوس سے تعلق رکھتے ہیں) پچھلے تین دنوں سے کہانیاں سنا پھیلا رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے انہیں حکم دیا کہ خواجہ آصف’ احسن اقبال اور چند دیگر نون لیگی رہنماوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے چند رہنماوں کیخلاف تحقیقات کریں اور مقدمات قائم کریں۔
خواجہ آصف اور احسن اقبال کا نام بتانے والے ذرائع یہ نہیں بتاتے کہ پیپلز پارٹی کے کن افراد کیخلاف مقدمات بنانے کو کہا گیا تھا
آدھی روایت والا راوی پوری بات کیوں نہیں کرتا۔
چلیں ہم مان لیتے ہیں انہیں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنماوں کیخلاف مقدمات بنانے کو کہا گیا انہوں نے حکومتی دباو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
لیکن ساعت بھر کیلئے رکئے یہاں’
بشیر میمن ہمیشہ سے نون لیگ کے پسندیدہ بلکہ لاڈلے افسر رہے۔ ہوسکتا ہے انہوں نے لیگی رہنمائوں کیخلاف مقدمات بنانے سے انکار کیا ہو مگر پیپلز پارٹی سے دشمنی توان کی گھٹی میں شامل ہے
انہوں نے کیسے اس پی پی پی کے رہنماوں کیخلاف کارروائی سے انکار کردیا جس پیپلز پارٹی کیخلاف ان کے بھائی نے 2018ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور انہوں نے ریاستی مشینری بھائی کیلئے استعمال کروائی مگر شکست کا منہ دیکھنا پڑا؟۔
راوی کی خدمت میں عرض ہے کہ جعلی اکاؤنٹس میں 53ارب کے گھٹالے کی کہانی بشیر میمن کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھی اور پھر یہ ساڑھے تین کروڑ پر آکر رک گئی۔ کیا بشیر میمن ان ساڑھے تین کروڑ کی ادائیگیوں کی دستاویزات اور ادائیگی کی وجہ سے لا علم تھے؟
جی نہیں انہیں معلوم تھا کہ ساڑھے تین کروڑ گنے کی خریداری کیلئے ادا ہوئے ہیں لیکن انہوں نے اس کیس میں دو بار اہم باتوں کو چھپایا
اولاً گنے کی خریداری کی رقم کو کرپشن کا پیسہ بنا کر پیش کیا،
دوئم انہوں نے ہی ماڈل ایان علی کے حوالے سے یہ تاثر عام کیا کہ وہ زرداری کے پیسوں کی منی لانڈرنگ کرتی ہے۔
جبکہ اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار’ ایک بڑے ریاستی ادارے اور خود بشیر میمن کو علم تھا کہ ایان علی ایک سابق آرمی چیف کے اس بھائی کی کیریئر ہے جو بعض مقدمات میں مفرور ہے۔
زرداری والا تاثر لطیف کھوسہ کے وکیل بننے سے پختہ ہوا۔
تب بھی ان سطور میں عرض کیا تھا۔ مولوی’ ذاکر اوروکیل صرف تگڑی فیس دیکھتے ہیں۔
اس قصے کو بھی جانے دیجئے۔
ہاں یہ درست ہے کہ بشیر میمن کے معاملے میں حکومت نے دو باتیں یکسر نظرانداز کیں
اولاً یہ کہ سپریم کورٹ کی ہدایت تھی کہ انہیں اصغر خان کیس اور جعلی اکائونٹس کیس مکمل ہونے تک ایف آئی اے کی سربراہی سے نہ ہٹایا جائے لیکن انہیں رخصت پر بھیج کر اب واجد ضیاء کی تقرری عمل میں لائی گئی۔
ثانیاً یہ کہ ان کی مدت ملازمت ختم ہونے میں 18دن (واجد ضیاء کی تقرری کے اعلان کے وقت) رہتے تھے۔
ایک اور بات بھی درست ہے
وہ یہ کہ ان سے کہا گیا کہ کراچی الیکٹرک کی جانب سے تحریک انصاف کو دئیے گئے انتخابی فنڈز کی تحقیقات بند کر دی جائے۔
ان ساری باتوں کے بیچوں بیچ ایک کہانی اور بھی ہے وہ وزیر اعظم کے مشیر نعیم الحق کی طرف سے اپنے محکمے میں مداخلت پر شاکی تھے
مگر جس طرح انہیں دیانت کا دیوتا’ اصول پسندی کا سقراط اور داتا گنج بخش ثانی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ درست نہیں
دیانت صرف مالی کرپشن نہ کرنے کو ہی نہیں کہتے کاش انجمن متاثرین بشیر میمن کو یہ بات سمجھ میں آسکے۔
جمعرات 5 دسمبر 2019ء
روزنامہ مشرق پشاور
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر