ڈاکٹر مختار ظفر تحقیق و تنقید کے حوالے سے منفرد، جانا پہچانااورایک معتبر نام ہے۔لٹریچر میں پی ایچ ڈی،گرانقدر تحقیقی و تنقیدی کتابوں کے خالق،ان کے متحقق تجزیے اور تبصرے تحقیق و تنقید کے حوالے سے جاندار مقام رکھتے ہیں۔ادب کے قارئین اور طالب علموں کے لئے ان کی ریسرچ مثلِ شمعِ شبستاں اور چراغِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔خطہء ملتان کی خوش نصیبی کہ اسے ڈاکٹر مختار ظفر جیسی علمی و ادبی بلند قد کاٹھ کی شخصیت میسر آگئی۔جن کے کام سے ملتان اور سرائیکی بیلٹ کے شعراء و ادباء نا صرف زندہ و امر ہو گئے بلکہ ان کے کلام ِ غیر مطبوعہ کے تاریخ کی گردسے نکلنے کے ساتھ ساتھ کلام ِ مطبوعہ کی تفہیم بھی آسان ہو گئی۔ڈاکٹر مختار ظفر اپنی علمی استعداد کی بدولت پورے پاکستان میں اپنا ایک با وقار نام رکھتے ہیں۔ا یک طویل عرصہ اردو ادب پر کام کرنے کے بعدانہوں نے سرائیکی ادب خاص کر فریدیات کو پروموٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی ان کی تصنیف ” آفاقی و سرمدی شاعر۔۔خواجہ غلام فرید ” کتاب کی شکل میں تفہیم ِ فرید کے حوالے سے فریدیات میں ایک باب کا اضافہ ہے۔بلکہ تفہیمِ فرید کے حوالے سے ایک نیا باب وا ہوا ہے ایک نیا پہلو روشن ہوا ہے۔مجلد،خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ108صفحات اور دو ابواب پر مشتمل،حصہء اول نقد و نظر، حصہء دوم تبصرہ و تجزیہ۔فصلِ اول میں کلام ِ فرید کی تفہیم،تشریح اور تحقیق کے حوالے سے مختلف فریدیاتی موضوعات پر مشتمل ڈاکٹر مختار ظفرکے مضا مین ہیں جن میں کلام ِ فریدکی نئے پیرائے میںتشریح و توضیح کی گئی ہے جبکہ فصل دوم میں فریدیات پر کتابی اور مقالے کی صورت میں کام کرنے والے ماہرینِ فریدیات کی تخلیقات پر ڈاکٹر مختار ظفر کے تجزئیے اور تبصرے شام ہیں۔انتساب سر زمینِ پاکستان اور ماہرینِ فریدیات کے نام ہے۔
ڈاکٹر مختار ظفر کی فرید شناسی کے ضمن میں کی گئی اس کاوش کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر طاہر تونسوی (جنرل سیکرٹری سرائیکی ادبی بورڈ ملتان ) یوں رقمطراز ہیں:”میں ڈاکٹر مختار ظفرکی اس عقیدت مندانہ مگر عالمانہ کتاب کو فرید شناسی کے ضمن میں بڑی اہمیت و افادیت کا مرقع گردانتا ہوںکہ ایک ایسے دانشور جس کی مادری زبان سرائیکی نہیں ہے،خواجہ فرید کی شاعرانہ عظمت اور ان کے فکر و فن کا جو وضاحت نامہ منظرِعام پرلائے ہیں،وہ موضوعاتی،اسلوبیاتی،تشریحاتی،توضیحاتی اورفلسفیاتی حوالوں سے فریدیات کے مباحث کے نئے دریچے وا کرتا ہے۔مجھے امید ہے کہ فریدیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب غیر مترقبہ نعمت سے کم ثابت نہیں ہو گی۔میں نے کتاب کے دیباچے میں ہر حوالے سے اس کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اور ڈاکٹر موصوف کی فرید شناسی کی داد بھی دی ہے”۔ ڈاکٹر مختار ظفر نے اپنے پیش لفظ” شعرِ فرید اور میں۔۔کچھ یادیں ۔۔کچھ باتیں”میں اپنی خوبصورت یادوںکے ساتھ ساتھ خواجہ فرید سے اپنی محبت، نسبت و عقیدت،ان کی شاعری سے رغبت اوروابستگی کا اظہار انتہائی لطیف انداز میں کیا ہے:ان کی تحریر میں خواجہ فرید کی کافیاں سر تال اور لے میں نظر آتی ہیں۔کلام ِ فرید سے لگاؤ کو بڑے ہی مسرور کن انداز میں بیان کرتے ہیں: ”یہ چند مضامین جو پیش کئے جا رہے ہیں خواجہ غلام فرید سے میری عقیدت اور انکے کلام سے میرے شغف کا مظہر ہیں”۔ ”خواجہ غلام فرید سے میرا تعلق اور انکے کلام سے میرا عشق بہت پرانا ہے۔بچپن سے یا پھر لڑکپن سے۔جب امنگیں منہ زور ہوتی ہیں اور ان کی شکستگی کا احساس شدید ہوتا ہے۔تب خواجہ غلام فرید کی کوئی کافی سننے میں آتی تولطف اور بشاشت کا احساس ہوتا۔۔اس وقت کافی یا اس کی تفہیم سے کہیں زیادہ وہ آواز جادو جگاتی،جسکی سحر ‘آفرینی کافی کے اثرات میں رنگ بھرتی تھی”۔
خواجہ غلام فرید کی شاعری میں نغمگیت،موسیقیت اور اور سرائیکی تہذیب و ثقافت کے بارے میں ڈاکٹر مختار ظفر یوں کہتے ہیں: ”موسیقی کا شوق ہمیشہ دم ساز رہااور یہ زندگی کی تلخیوں کو شادکام کرتا رہا۔سرائیکی موسیقی سے دل بستگی ہو گئی۔خواجہ غلام فرید کے نغمے کانوں میں رس گھولتے تو دیر تک اثرات باقی رہتے۔پٹھانے خان کی آواز میں کافی” میڈا عشق وی توں”نے مجھے ہمیشہ سرشار کیا،خواجہ سئیں سرائیکی خطے کا مان ہیں۔اس کے کلچر کی فکری شعری علامت ہیں۔جس کلچر کی شناخت خواجہ فرید کا سا کلام ہو وہ ایک مضبوط و مستحکم اور توانا تہذیب کی گواہی دیتا ہے” کلام ِ فرید بلاشبہ بہترین انسان دوست اور محبت پرور نظریہء حیات ہے جس میں تصوف کے رنگ بھرپور طور پر نما یاں ہیں،کائنات میں موجود تمام فطری مظاہر ،وحدةالجود کے جلوے اور نظارے ہیں۔ان تمام مناظر میں وحدة اولجود کی رنگینیاں اوررعنائیاں نظر آتی ہیںیہ سب روپ اس حسنِ حقیقی کے روپ ہیں۔یہ تمام جمالیاتی حسن اسی وحدة الوجود کا ہی ہے، جس کے حسن سے عشق و سر مستی کے چشمے پھوٹتے ہیں۔خواجہ فرید نے اس سرمدی فلسفے کو کس خوبصورتی کے ساتھ جمالیاتی انداز میں پیش کیا ہے،اس کے لئے ڈاکٹر مختار ظفر صاحب کا انتخاب دیکھتے ہیں جس میں کافی کے اشعار کے ساتھ تشریحی اور تفہیمی پہلو بھی لطیف انداز میں واضح کر دیے گئے ہیں:
ہر صورت وچ دلدار ڈٹھم کل یار اغیار کوں یار ڈٹھم
کتھ جوہر تے کتھ عرض ڈٹھم کتھ سنّت نفل تے فر ض ڈٹھم
کتھ صحت تے کتھ مرض ڈٹھم کتھ چُست اتے بیمار ڈٹھم
کتھ پھل گل باغ بہار ڈٹھم کتھ بلبل زار نزار ڈٹھم
کتھ خس خاشاک تے خار ڈٹھم ہک نور دے سبھ اطوار ڈٹھم
کتھ منطق، نحو تے صرف ڈٹھم کتھ اسم تے فعل تے حرف ڈٹھم
ہک معنی ہر ہر طرف ڈٹھم چو گوٹھ ڈٹھم چو دھارڈٹھم
(میں نے جو بھی شکل اورصورت دیکھی اس میں مجھے اپنا دلدار ہی نظر آیا۔اپنے دلدار کے اس جلوے کا کمال یہ ہے کہ کوئی غیر ہے اپنا،دوست یا دشمن ،سب کو اپنا دوست ہی پایا۔اس دنیا میں میرے مشاہدے نے مختلف النوع چیزوں کو پایا،کہیں ایسی چیزیں دیکھتا ہوں جو بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیںاور کہیں وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو جوہر کے متعلقات میں ہوتی ہیں۔کہیں میں نے سنّت نفل اور فرض کی ادائیگی کے مختلف رنگ دیکھے۔کہیں دیکھتا ہوں تو صحت کی بادشاہی ہے اور کہیں بیماریوں کا راج ہے۔کہیں تندرست اور توانا لوگ نظر آتے ہیںاور کہیں بیمار اور لا چار۔کہیں میں نے پھول، غنچے اور باغات دیکھے،اور کہیںزار نزار بلبل کا نظارہ کیا ہے۔کہیں خس و خاشاک اور کانٹے نظر آتے ہیں ،کہیںجو بھی دیکھا،جہاں بھی دیکھااور جدھر بھی دیکھا،ایک ہی نور کے جلوے اور انداز واطوار نظر آئے۔کہیں میری آنکھوں نے علم کی مختلف صورتیں دیکھیں،خواہ وہ منطق ،نحو اور حرف کے علوم تھے یا اسم فعل اور حرف کی عملداریاں،مگر ان سب میں ایک ہی مفہوم اور ایک ہی معنی رواں دواں نظر آیااور یہ معنی اور مفہوم مجھے چاروں اطراف اور تمام مقامات میں نظر آیا)ڈاکٹر مختار ظفر نے” خواجہ غلام فرید۔۔ایک آسودہ حال شخصیت مگر شاعرِ رنج وغم”مضمون میں خواجہ فرید کی زندگی کے پس منظر اور شاعری کے محرکات مشاہداتی و تجزیاتی طور پر بیان کرتے ہوئے خواجہ فرید کے تصوف اور فلسفے کادیگر شعراء کے صوفیانہ اور فلسفیاتی مضامین اور افکار پر فوقیت دیتے ہوئے انھیں رنج و الم کا امتیازی شاعر قرار دیا۔
ڈاکٹرصاحب خو اجہ سئیں کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کے باطن نے خارج کو وسیع القلبی کے ساتھ اپنی ذات میںبے نظیر طریقے سے ضم کیا۔خواجہ سئیں کے اظہار میں درد و کرب کوجو دوسرامنبع قرار دیتے ہیں وہ ہجر و فراق کا معاملہ ۔ تصوف اور صوفیانہ مضامین کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب خواجہ فرید کے مقابلے میں دیگرمتقدمین شعراء مثلاََ میر اور غالب کے صوفیانہ مضامین کو کائنات کے مسائل کو سمجھنے،اور تخٰیل کوضروری عارضی جست دینے کا عمل قرار دیتے ہوئے تصوف سے ایک حد تک استفادہ قرار دینے کا عمل گردانتے ہیں،البتہ درد کے بارے میں کہتے ہیں کہ باقاعدہ صوفی شاعر تھے۔جبکہ خواجہ فرید کے صوفیانہ مسلک کو مقصودِ بالذات قرار دیتے ہیں۔مثلاََ ڈاکٹر مختار ظفر وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں : ” انھیں زندگی سے پیار ہے اور وہ نروان بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس لئے ان کا تصوف ایک داخلی تجربہ ہے ،ایک باطنی کیفیت ہے۔اسی وجہ سے ان کے کلام میںصوفیانہ کیفیتوں کے رنگا رنگ گلزار کھلے ہوئے ہیں۔دیکھا جائے تو ان کی شاعری کی توانائی ،وقعت اور رفعت انہی موضوعات کی سے ہے جن کا اظہار بھی اعلیٰ پائے کا ہے۔مقامی روایت کے مطابق انھوں نے اپنے آپ تانیثی حیثیت میںسسی کے روپ میں رہ کراپنے محبوبِ حقیقی کی تلاش اور جستجوکی اور اس سے ہجر و مفارقت کے دردِ دل گداز کو جانکاہ انداز میں پیش کیاہے۔صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارا وجود،روحِ ازل سے جدائی کا حاصل ہے،اس لئے انسانی دکھ اور کرب کی وجہ بھی یہی ہجر اور جدائی ہے۔وہ جب تک زندہ ہے روحِ ازل سے وصال کے لئے تڑپتا رہتا ہے۔ عشق کا روحانی تجربہ جتنا شدید ہو گاتڑپ اور کسک میں بھی ویسی ہی شدت ہو گی۔یہی تڑپ اور غم تو ہے جو تخلیقِ کائنات کی بنا ہے”۔
اور اسی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے ڈاکٹر مختار ظفر صاحب نے خوجہ غلام فرید کے درج ذیل اشعار مع تشریح، تفہیمی تقاضے کے طور پرپیش کیے ہیں:
ڈکھڑیں کارن جائی ہم سولیں سانگ سمائی ہم
جانون لا دی پنڈ بلا دی چم سر اکھیاں چائی ہم
گالھی،کملی،سنجڑی، دھر دی ہک غم دی سدھرائی ہم
( میں پیدا ہی دکھ اٹھانے کے لئے ہوئی تھی۔سانسوں کا یہ تسلسل بھی مجھے دردر و غم کو جھیلنے کے لئے عطا کیا گیاتھا۔اس لئے کہ اس دنیا میں میرے لئے کوئی گنجائش نہیںتھی،اس لئے عالمِ وجود میں آتے ہی مصائب و آلام کی گٹھڑی کو چوم کر اٹھا لیا۔میں تو آغاز بلکہ ازل سے ہی بھولی بھالی اور عقل سے خالی تھی،اس کے با وجود مجھے غم کا عرفان ضرور حاصل رہا) خواجہ فرید بلا شبہ آفاقی و سرمدی شاعر تھے۔بے آب وگیاہ روہی سے انھیں عشق تھا۔اور روہی واسیوں کے ساتھ ان کی والہانہ محبت تھی،آپ ہمیشہ ان کی محرومیوں اور دکھڑوں کو اپنی شاعری میں اس طرح بیان فرماتے کہ خود کو ان کی کیفیات میں تحلیل کر لیتے۔مگر آپ نے ہمیشہ ان واسیوں کو خوشیوں سے بھر پورزندگی کی نوید دی۔آپ اپنے کلام کے ذریعے سے غم و یاس اورنا امیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید اور شادمانی کی روشنی سے پیدا کرتے۔آپ نے کریہہ اور تس کی ماری روہی کو روہی رنگ رنگیلڑی بنا کر پیش کیا۔خواجہ فرید کوروہی کے مظاہر اور مناظر سے چاہے خس و خاشاک ہی تھے سے بے پناہ محبت تھی۔غم کدے کو وہ جمالیاتی حسن بخشا کہ روہی اور روہی واس اس رنگ میں رنگ گئے۔
”آفاقی و سرمدی شاعر۔۔۔خواجہ غلام فرید” میں ایک مضمون” شعرِ فرید سے جھلکتی تہذیبی قدریں” میں ڈاکٹر مختار ظفر صاحب کے مذکورہ بالا تناظر میں تشریحی اور تفہیمی کمالات ملاحظہ ہوں:
روہی رنگ رنگیلی چِھک کھِپ ہار حمیلاں دے
بوٹے بوٹے گھنڈ سہاگوں گیت پرم دے گاوے
کیسر بھنڑی چولی چنڑی ول ول مینہ پُساوے
پورب ماڑ ڈکھِنڑ دے بادل کوئی آوے کوئی جاوے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ