نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر

میاں نواز شریف کے ملک سے جانے کے بعد سے جنجھلائے ہوئے وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر مولانافضل الرحمن پربرس پڑے ہیں

عمران خان کی جگہ کوئی اوروزیراعظم ہوتا تو شایدوہ دسمبر کے مہینے کے لئے پٹرول کی قیمت میں پچیس پیسے فی لیٹرکمی کی خبر نشر ہی نہ ہونے دیتا اوروہ بھی ایسے وقت میں جبکہ حکومت کی مقبولیت کا گراف آرمی چیف کو توسیع دینے کے معاملے پرمتاثر ہواہواور سپریم کورٹ میں "مارکھانے "سے پہلے ٹماٹروں نے حکومت کو وہ ٹف ٹائم دیا ہوکہ لوگ اسلام آبادکے دھرنے میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی سے پیدا ہونے والی مشکلات کو بھول گئے ہوں۔ ان معاملات میں حکومت کی کارکردگی اورفعالیت کا گراف لوگوں کی نظروں میں ایسا گرا کہ وہ جوحکومت بننے سے پہلے سوشل میڈیا اورہرمیدان میں عمران خان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے اورہرناقد کی گالیوں سے تواضع کرتے تھے وہ سب بھی اب اصول کے نام پرہی سہی لیکن اپنی پسندیدہ پارٹی پرزیرلب تنقید شروع کرچکے ہوں۔یہ سب کومعلوم ہے کہ اپنوں کے رویوں میں یہ تبدیلیاں کوئی ایک رات میں نہیں آئیں بلکہ اس کے پیچھے بھی خراب حکومتی کارکردگی کی ایک طویل فہرست ہے۔
میاں نواز شریف کے ملک سے جانے کے بعد سے جنجھلائے ہوئے وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر مولانافضل الرحمن پربرس پڑے ہیں اورکہتے ہیں کہ مولانا اسلام آباد ڈیزل کا پرمٹ لینے آئے تھے وزیراعظم ہوتے ہوئے انہیں ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں اورجب آپ ریاست کی مشینری کے مختارکل اوراداروں کے ساتھ ایک پیج پرہوں آپ کے پاس مولانا کا ایک ہی جواب ہونا چاہیئے تھا اوروہ تھا کارکردگی کی زبان میں، اس کے علاوہ وہ کچھ بھی کہیں گے تو لوگ یہی کہیں گے کہ مولانا کو تو لوگوں نے آپ کے کہنے کے مطابق مسترد کیا ہے اور نہ صرف مولانابلکہ تمام اپوزیشن سے زیادہ آپ کو طاقت دے کر اسمبلی میں بھیجاہو ایسے میں آپ کا جواب وہی ایک ہونا چاہیئے تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ آپ کے ہرناقد کے لئے سب سے اچھا جواب یہی ہے کہ آپ کی ترقی کا سفر جاری رہے۔عمران خان اگر ملکی مالی حالت کو بہتر کرنے کے قابل نہ بھی تھے تب بھی بہت سارے ایسے میدان تھے جن میں کارکردگی بہتر کی جاسکتی تھی، ملک کی کم از کم کسی ایک یونیورسٹی کو ٹارگٹ کرکے اسے دنیا بھر کی بہترین یونیورسٹیوں کے برابر لانے کی منصوبہ بندی کرسکتے تھے، کسی ایک کھیل کو ہدف بناکراس میں اپنے گراف کو بلند کرسکتے تھے۔ ملک بھر میں بیماریوں کے میدان میں گراف اوپر ہی اوپر جارہا ہے، ڈینگی تک کا بہترمقابلہ نہیں کیا جاسکا، نوازشریف ملک سے جاچکے ہیں اورزرداری صاحب کا معاملہ بھی قریبا تیار لگ رہا ہے۔خود حکومت کے سب سے اہم اتحادی شیخ رشید یہ تصدیق بلکہ نوازشریف سے یہ شکوہ کرچکے ہیں کہ نواز شریف تواتنا ظالم تھا کہ جاتے جاتے بھی ایک پائی کی ادائیگی نہیں کرکے گیااس سے یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ ڈیل کے نتیجے میں نواز شریف کا بیرون ملک جانابالکل غلط پروپیگنڈہ تھا ایسے وقت میں پٹرول کی قیمت میں پچیس پیسے فی یونٹ کمی کی خبرکا الٹا جو اثرہوا ہے اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جس کی رسائی سوشل میڈیا تک ممکن ہے۔
ان حالات میں عمران خان صاحب کی جنجھلاہٹوں سے ان کی پریشانیاں پوری طرح عیاں ہیں تودوسری طرف انہیں اس حالت میں دیکھ کر ان کے مخالف ضروراس سے پورا مزہ لے رہے ہونگے کہ اقتدار میں رہ کر بھی اگرآپ خوش نہیں تو اس سے زیادہ ان کے لئے خوشی کی کیا بات ہوسکتی ہے؟ عمران خان اگران حالات میں صرف اتنا ہی کرلیتے کہ مولانا کے دھرنوں، نوازشریف کی بیرون ملک جانے میں کامیابی اورآرمی چیف کے معاملے میں اپنی ٹیم کی ناکامیوں پرطیش میں آنے کی بجائے اگر صرف خاموشی ہی اختیار کرلیتے تب بھی ہم انہیں ایک دوراندیش لیڈراورمضبوط انسان سمجھتے لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں پردرد سے چیخ وپکار نے انہیں کمزورثابت کیا ہے۔
ایک مشہور قول ہے کہ جنگ میں ثابت قدمی کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپ تیرکھا کربھی چہرے پرکرب نہ آنے دیں تاکہ آپ کے دشمن آپ کی اندرونی کمزوریوں کا اندازہ نہ لگاسکیں۔
لگتا ہے کہ مولاناکے اپنے یاکسی اورکے ان کے ذریعے چھوڑے ہوئے تیروں میں سے کچھ ابھی تک فضاوں میں اڑرہے ہیں اوران میں سے کوئی بھی عمران خان اوران کے اتحادیوں کو چھوتا ہے تو اس پروہ غصے سے بے قابوہوکرظاہر کردیتے ہیں کہ وہ کتنے پریشان ہیں ان تیروں میں سے کسی ایک کے چھوجانے کے بعد اگروزیراعظم کی سطح پراس طرح چیخ وپکار ہوگی تو پھردشمن خوش نہ ہو تو اس سے زیادہ بے وقوف کون ہوگا؟ کسے نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا اس میں اپوزیشن کی خاموشی کی وجہ کیا ہے، ہم سب کو معلوم ہے کہ مولانا جس خاموشی سے واپس معاشرے میں ضم ہوئے ہیں وہ کوئی مذاق تونہیں۔ اپوزیشن بھی پاگل ہوگی اگر اس کے مقاصد حکومت کو درپیش چیلنجوں کے میدانوں میں خود ہی پورے ہورہے ہوں تواسے اپنی طاقت کو خراب کرنے کی کیا پڑی ہے۔
مجھ جیسا کوئی عام انسان بھی عمران خان کی جگہ وزیراعظم ہوتا تو بحرانوں میں کسی کو اپنا درد محسوس تک نہ ہونے دیتا۔
ان اضطرابوں کے مقابلے میں حکومت کے پاس اس سے بہتر آپشن کوئی نہیں کہ اپنے وجود اوراسے لاحق کمزوریوں کو سمیٹے اورلوگوں کے مسائل کے حل کے لئے نہ صرف سیاسی بالغ نظری کے تاثر کو بڑھائے بلکہ سرکاری افسروں کو بھی اعتماد دیں کہ وہ بھی اس نظام کے سب سے اہم جز ہیں اواگرکسی صوبے میں وزیراعلی یا کوئی بھی اہم سمجھا جانے والا شخص کمزورہے توضد چھوڑ کراس کو ہٹانے میں وقت نہ لگائیں۔

About The Author