دو تین دن پہلے ایک ویب چینل کے لئے انٹرویومیں یہی سوال پوچھا گیا کہ کیا تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بحال ہونی چاہئیں؟ انٹرویوز میں چند سکینڈز کے اندر جواب دینا پڑتا ہے اور زیادہ تفصیلی بات کرنے کا موقعہ بھی نہیں مل پاتا، اس لئے بات کی ،مگر کچھ تشنہ رہ گئی۔
طلبہ یونین کی بحالی کا مقدمہ ہمارے ہاںخاصے لوگ لڑتے ہیں اور ان کا موقف بے وزن یا کمزور نہیں۔دوسری جانب طلبہ یونین پر پابندی لگانے والے بھی ایک باقاعدہ بیانیہ رکھتے ہیں، اتنی آسانی سے اسے بھی اٹھا کر پھینکا نہیں جا سکتا۔ اب تو اس کے حق میں قانونی دلائل بھی موجود ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے۔
اسی فیصلے کی رو سے ہر طالب علم سے ایک بیان حلفی لیا جاتا ہے کہ وہ دوران تعلیم کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔مجھے نہیں معلوم کہ جو لوگ یونین کی بحالی کی بات کرتے ہیں، وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا کیا حل نکالنا چاہتے ہیں؟ انہیں اس کا علم نہیں یا وہ پرامید ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے مقابلتاً زیادہ بڑے بنچ سے کوئی نیا فیصلہ ان کے حق میں آ جائے گا۔ عرض یہ ہے کہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے قانونی پہلوﺅں پر بھی نظر ڈال لیں۔
طلبہ یونین کی بحالی کی بات کرنے والے زیادہ تر وہ ہیں جو ماضی میں طالب علم رہنما رہے۔ انہیں جمعیت ، ایم ایس ایف ،پی ایس ایف ، این ایس ایف وغیرہ کے پلیٹ فارم سے کسی کالج، یونیورسٹی کا الیکشن لڑنے کا موقعہ ملا، عہدے دار رہے اور وہ رومانس ان کی یادوں ، ناسٹلجیا کا حصہ ہے۔ ہمارے سینئر لکھنے والوں، تجزیہ کاروں میں بڑاحصہ ان کا ہے جو ستر کے عشرے کی رائٹ ، لیفٹ نظریاتی کشمکش کا حصہ رہے ، اس سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا، فکر کی تشکیل ہوئی اور وہ اس ماحول ، ان دنوںکو اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ایک دلیل یہ لوگ اکثر دہراتے ہیں کہ طلبہ یونین انتخابات پر پابندی سے نوجوانوں کے لئے سیاست سیکھنے کا موقعہ ختم ہوگیا، سیاسی نرسری کا خاتمہ ہوگیا ، وغیرہ وغیرہ۔ انہیں لگتا ہے کہ طلبہ تنظیمیں فعال ہوں گی، یونین انتخابات پھر سے ہونے لگے تونوجوان سیاستدانوں کی ایک نئی تربیت یافتہ کھیپ میسر ہوگی، سیاسی جماعتوں میں یوں پڑھا لکھا، سیاسی کلچر پیدا ہوجائے گا۔
ان سب سے ہمارا ایک سادہ سا سوال ہے کہ طلبہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے جاتے ہیں یا سیاست کے سبق سیکھنے ؟ کتنے والدین ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے سیاسی نرسری بھیجنا پسند کریں گے؟ویسے تعلیمی اداروں کی بھی اقسام ہیں۔ پروفیشنل تعلیمی اداروں میں تو خیر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کا کوئی جواز نہیں۔ایک لڑکا، لڑکی نوے ، بیانوے فی صد نمبر لے کر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی یا کسی اور میڈیکل کالج جاتا ہے ، اس کا مقصد ایم بی بی ایس کے پانچ سالہ کورس کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔اسے سیاست کیوں سکھائی جائے؟ یہی بات انجینئرنگ یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی اور دیگر ٹیکنیکل تعلیمی اداروں کے لئے صادق آتی ہے۔
سوشل سائنسز کے جو طلبہ سیاست میں دلچسپی رکھیں، ان کے لئے یہ اہتمام سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہیے۔نوجوانوں کو سیاست کی تربیت دینا سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ وہ کریں۔ نوجوانوں کے لئے سٹڈی سرکل چلائیں، سیاسی شعور پیدا کریں۔ انہیں الیکشن کمپین چلانے، الیکشن لڑنے کی تربیت دیں۔ گراس روٹ لیول پر جمہوری اداروں جیسے یونین کونسل، تحصیل ، ضلع کونسل وغیرہ کے لئے نوجوانوں کو ٹکٹ دیں، انہیں گروم کریں ۔
بڑے سیاسی لیڈر نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ کریں، انہیں لیکچر دیںاور یوتھ ونگ، سٹوڈنٹ ونگ وغیرہ کے ذریعہ ایسی سیاسی نرسریاں قائم کریں، جہاں سے تربیت یافتہ، باشعور، سیاسی سوچ رکھنے والا نوجوان کارکن انہیں میسر ہو۔
اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔اس سے طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر نہیں ہوں گی، کیمپس پر قبضے، ہاسٹلوں کو ہائی جیک کرنے کا گھناونا ، بھیانک کھیل بھی شروع نہیں ہوسکے گا، تعلیمی اداروں میں تشدد ہوگا نہ ہی خون خرابہ۔ سیاسی جماعتیں اگر نوجوانوں کی سیاسی تربیت کے لئے ایسے اقدامات کریں تو ان میں اکیڈیمیا ، تھنک ٹینک بھی معاونت کر سکتے ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرر انہیں لیکچر دے سکتے ہیں، سوال جواب کے مفید سیشن بھی منعقد کئے جا سکتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں بڑی سیاسی جماعتیں اس نوعیت کی سرگرمیاں کرتی رہتی ہیں،
اسی وجہ سے انہیں تربیت یافتہ نوجوان کیڈر ہمیشہ دستیاب رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی نالائقی، کچھ نہ کرنے کی سزا تعلیمی اداروں اور وہاں پڑھنے والے طلبہ کو کیوں دیں؟جو ان کے حصے کا کام ہے، دل لگا کرکریں۔
یہاں پر ایک نکتہ یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ آخر تعلیمی اداروں میں نصابی تعلیم کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی سکھایا جاتا ہے، لیڈرشپ خصوصیات پیدا کرنے، اچھی تقریر کرنے، دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیتیں طلبہ میں یونین سرگرمیوں میں حصہ لے کر پالش کی جا سکتی ہیں۔ بات معقول ہے، مگر اس کا حل موجود ہے۔
تعلیمی اداروں میں مختلف سوسائٹیز موجود ہیں، ان کی سرگرمیوں پر توجہ دی جائے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بی ایس سی کی تو ہمارے کالج میں سائنس سوسائٹی کا ایک باقاعدہ الیکشن ہوا۔ جن طلبہ نے اس میں حصہ لیا،انہیں دو تین دن کمپین کے لئے دئیے گئے۔
اپنے انداز سے انہوں نے ہاتھ سے لکھے ہوئے پمفلٹ بانٹے، مختلف وعدے کئے، طلبہ کو قائل کیا اور پھر ووٹنگ کے ذریعے عہدے دار چن لئے گئے۔ ایسا انتخاب آرٹس سوسائٹی بلکہ مختلف اہم مضامین جیسے پولیٹیکل سوسائٹی ، جغرافیہ سوسائٹی، ہسٹری سوسائٹی ، لٹریری سوسائٹی کا ہوسکتا ہے۔ہم نے تو صرف نام ہی سنا ، مگر گورنمنٹ کالج جیسے پریمئر اداروں میں ڈرامیٹک سوسائٹی، ڈیبیٹ سوسائٹی وغیرہ موجود ہیں اور خاصا فعال کردار ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بھی یہ ہیں، ان کی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ تمام تعلیمی اداروں میں ایسی مثبت سرگرمیاں شروع کی جائیں۔ ایک زمانے میں ڈیبیٹ ، کوئز مقابلے بڑے مشہور ہوا کرتے تھے، انٹرکالجز، انٹریونیورسٹی مقابلے ہوتے ۔ اب ان کے شعلے ماند ہوچکے ہیں۔ سکولوں میں بزم ادب کا پیریڈ ہوتا تھا، اب خواب خیال بن گیا۔
سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں کو بھی اس کا پابند بنانا چاہیے۔ وزارت تعلیم اس کے لئے الگ سے ونگ بنائے اور پھر ان کے انسپکشن سکواڈ کے لوگ مختلف جگہوں پر وزٹس کریں، دیکھیں کہ کہاں کیا کچھ ہور ہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سپورٹس سرگرمیاں بھی مکمل ختم ہوگئی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ احمد پورشرقیہ ایک تحصیل تھی، اس کے گورنمنٹ صادق عباس ہائی سکول میں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، باسکٹ بال ، والی بال، کبڈی وغیرہ کی باقاعدہ ٹیمیں تھیں۔
سالانہ انٹرسکول ٹورنامنٹس ہوتے ، ان بڑے کھیلوں کی ٹیمیں باقاعدہ کئی روز نیٹ پریکٹس کرتیں، مقابلے دیکھنے دوسرے سکولوں کے بچے بھی آیا کرتے اور زبردست مسابقت کی فضا ہوتی۔ اب تو سپورٹس ڈے بھی کہیں ہوتا ہے، کہیں نہیں۔کھیلوں کے لئے گراﺅنڈز ہی نہیں بچے۔ ہر جگہ قبضے ہوگئے۔ سرکاری سکولوں کے پاس گراﺅنڈز ہوا کرتے تھے، مگر طلبہ کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ نئے بلاکس تعمیر ہونے سے بیشتر جگہوں پرعمارتیں بن گئیں۔
یہ وہ کام ہیں جو کرنے چاہئیں۔ عمران خان نے حسب عادت بلا سوچے سمجھے یونین بحالی کے حوالے سے ایک ٹوئٹ داغ دیا۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں کہ دوسری جگہیں تو چھوڑیں، خود لاہور کے تعلیمی اداروں میں یونینز کیا کرتی تھیں، کیا قیامت ڈھائی جاتی تھی؟ پابندی آخر لگی کیوں ؟یہ تو ایسے ہی ہے کہ کسی روز ہڑبڑا کر کوئی سیاستدان اٹھے اور ٹوئٹ جڑ دے کہ اس سال بسنت پھر سے ہوگی۔ پھر اسے بتایا جائے گا کہ حضور والا آپ کے نیک خیالات اپنی جگہ، مگر پہلے یہ تو معلوم کر لیجئے کہ بسنت پر پابندی کیوں لگی؟
کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہ دیرینہ ، تفریحی تہوار ختم ہوا اور کس طرح تمام تر کوششوں کے باوجود اس کے منفی، ہلاکت خیز عناصر دور نہ ہوسکے، مجبوراً پابندی لگانی پڑی اور یہ پابندی عدالت نے لگائی ہے، جسے وہی دور کر سکتی ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی والا معاملہ بھی بسنت کی بحالی سے ملتا جلتا ہے۔ بسنت بحال ہونی چاہیے، ضرور ہو۔ غریبوں کا تہوار تھا، لوگ خوشی مناتے، انجوائے کرتے تھے۔بچے بالے پتنگیں اڑاتے ،بسنت نائٹ صرف بڑے ہوٹلوں میں نہیں ہوتی تھی، بلکہ عام گھروں میں بھی پورا خاندان مل کر عوامی انداز میں بسنت نائٹ مناتا۔
اس خوبصورت کلچرل فیسٹول کو یقینا بحال ہونا چاہیے ، مگر یہ نہیں ہوسکتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ جن کا یہ تہوار ہے، انہوں نے ہی اس کا بیڑا غرق کیا۔ وہی کیمیکل والی پتنگیں اڑاتے اور گردنیں کاٹتے ہیں۔ اسی وجہ سے پابندی لگی۔ یونین پر پابندی بھی طلبہ تنظیموں ہی کی وجہ سے لگی۔ ان کی حرکتیں ہی ایسی تھیں کہ پابندی لگانا پڑی۔ ان طلبہ تنظیموں کی وجہ ہی سے پابندی تادیر لگی رہے گی۔ یہ وہ بات ہے جو طلبہ یونین کی بحالی کے حامیوں کو سمجھنا چاہیے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ