عراق کے بھاگتے بُزدل حکمرانوں کے ایوانِ اقتدار کی کرسی ! جس پر بیٹھے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے محنت کش کے چہرے، لباس اور تن پر کوئلے کی سیاھی اس کے طبقے کی فتح کی گواھی بنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی سامراج نے اپنے حامی عالمی گماشتوں کی مدد سے پوری دنیا کے سکون برباد کرنیکی خباثت اور جنون میں جس طرح عراق کو تاراج کیا وہ ایک ایسی داستان ھے جو کسی قیامت سے کم نہیں۔۔۔۔
امریکی سامراج نے اپنے مالیاتی مقاصد حاصل کرنے کے بعد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی غرض سے عراق سے اپنی اور اتحادی فوجوں کے انخلاء کے بعد اقتدار بظاہر عراقیوں کے حوالے کیا مگر اصل حکمران سرمائے کی قائم رھی۔۔۔۔۔۔
امریکی سامراج کی خاصیت کی اب تک یہ تاریخ رھی ھے کہ اس کی جس ملک کیساتھ سطحی دشمنی یا کسی ملک کیساتھ گہری دوستی رھی تو ذلت و رسوائی وہاں کی عوام کا مقدر ٹھہری ۔۔۔۔۔۔۔ تو ایسے میں عراق ؟ جسے بیدردی سے روند دیا گیا ہو وہاں انسانی زندگیوں کو زندگی کا نام دینا زندگی کی توہین سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ھے؟ مگر انسان (محنت کش طبقہ ) بھی زندگی گزارنے کی دھن کا اتنا پکا ھے کہ اپنی بربادیوں کی خاکستر میں گلاب کِھلا دینے کے عزم سے باز نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عراقی محنت کشوں کے زندگی گزارنے کے اس عزم کیلئے عرصہ گذشتہ تقریباً دو ماہ قبل نوجوان طالب علم لڑکیوں کے ایک چھوٹے سے احتجاج نے ایک چنگاری کا کام کیا۔۔۔
ہوا یوں کہ عراق کے ایک شہر میں بصرہ میں اپنی تعلیم کی بہتری کیلئے ایک چھوٹا سا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مگر اربابِ اقتدار نے اس چھوٹے مظاہرے کو اپنی شان میں گستاخی تصور کیا۔ اور نوجوان طالب علم بچیوں کو اس گستاخی کی سزا دینے کیلئے ( سرمائے کے ہر گماشتہ حکمران کی طرح) پولیس کے ذریعہ بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔۔۔۔۔۔۔
ان بچیوں پر بیہمانہ تشدد کے خلاف مقامی قبائل کے لوگ ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے سراپا احتجاج بن گئے۔۔۔ ان کا نعرہ تھا کہ "ھم یہ گوارہ نہیں کر سکتے کہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں پر حکومتی کتے اس طرح جھپٹ پڑیں۔”۔۔۔۔ عراقی حکومت کو یہ بھی ناگوار گزرا اور انہوں نے ان بزرگوں پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولے استعمال کئیے۔۔۔۔
بس پھر کیا ہوا ؟ سارا عراق پھٹ پڑا۔ نجف ، بغداد، سلیمانیہ اور بصرہ سمیت تقریباً ہر بڑے شہر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔۔۔ ان مظاہرین نے عراقی حکومت سمیت ایران، کویت اور امریکہ کو اپنے غصے کا نشانہ بنایا۔۔۔۔ گزرتے وقت کیساتھ ساتھ عراق کے عوام جوں جوں بپھرتے چلے گئے عراقی حکومت کا جبر اسی شدت سے بڑھتا چلا گیا۔۔۔۔۔
ریاستی اہلکاروں نے مظاہرین کے سر اور سینوں میں گولیاں اتار دیں۔ بھاگتے ہوئے مظاہرین کا پیچھا کیا گیا اور ان کو گھر کے اندر شہید کرنا شروع کردیا۔ گلیوں سے معصوم بچوں کو اٹھا لے جا کر قتل کر دیا گیا۔ مظاہرین پر دن کو دستی بم تو رات کو ان کے گھروں پر راکٹ فائر کرنا شروع کر دئیے گئے۔۔۔۔۔
ایک ایک شہر میں پچاس پچاس سے زائد لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اب تک کی اطلاع کیمطابق عراق میں مظاہرین شہداء کی تعداد کی تعداد 800 ، اور زخمیوں کی تعداد 17000 سے تجاوز کر چکی ھے۔۔۔۔
اس سب کے باوجود عراقی محنت کش مظاہرین کے حوصلے بلند ہیں۔۔۔۔ وہ ریاستی پروپیگنڈہ کا جواب دینے کیلئے اپنا میگزین "The Tuktuk ” نکال رھے ہیں۔ جس میں ریاستی مظالم کی داستانوں بیان کرنےکیساتھ مظاہرین کا حوصلہ بڑہا رہے ہیں۔۔۔۔
حکومت کی نیٹ پر پابندی کیخلاف نوجوان نئے سائنسی ذرائع استعمال کرکے اپنے رابطے بحال رکھے ہوئے ہیں۔ عراق کے احتجاجی مظایرین میں ہر عمر کے، ہر مذہب کے، ہر مسلک کے، ہر قوم و قبیلے کے لوگ ہر تفریق کو مسرد کر کے برابر شریک ہیں۔ یہاں تک عراق کرد اپنی فوجی جتھوں سمیت عراقی محنت کشوں کے ساتھ آن ملے ہیں۔ اسی طرح اب خود عراقی فوج کی ملیشیاء اور پولیس کے جتھے عراقی مظاہرین کی حمایت کر رھے ہیں۔۔۔۔۔۔
اس وقت تقریباً تمام بڑے بڑے کرپٹ سیاسی و مذہبی حکمران و پیشوا ملک چھوڑ کے بھاگ گئے ہیں۔۔۔۔۔ عراق کے ایوان خالی پڑے ہیں۔۔۔۔ عراق کے تخت و تاج عام میلے کچیلے، پھٹے اور لہو رنگ سرخ لباس محنت کشوں کے قدموں کی ٹھوکروں کی پہنچ سے زیادہ دور نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاھم حتمی فتح کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ھے۔۔۔۔ کیا ہوتا ھے؟ کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ عراقی محنت کشوں کی ہمت، حوصلوں اور ان کے عزم کے تسلسل اور انقلابی لائحہ عمل سے مشروط ھے۔۔۔ ہمارے دل عراقی محنت کشوں کیساتھ دھڑک رہے ہیں۔۔ھماری نمناک آنکھیں عراقی محنت کشوں کی جیت کے جشن دیکھنے کی منتظر رہینگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس وقت ھم دریدہ دل اور جگر فگار پاکستانی محنت کش اپنے عراقی بھائیوں کی جدوجہد کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے اپنے وطن کو گھیرے ہوئے چند امریکی سامراج کے گماشتہ حکمرانوں سے نجات حاصل کرنیکی جدوجہد کرنے کی قسم کھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ شاہد ھے کہ جیت ہمیشہ، ہر جگہ سچے جذبوں کا مقدر بنی ھے۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ