نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نظامِ سرمایہ داری اور اس میں مسائل کا حل ؟رؤف لُنڈ

نظام سرمایہ کی اسی واردات بارے بھی کارل مارکس نے کہا تھا کہ " سرمایہ داری کے پاس اپنے آپ کو بچانے کیلئے ایک چور راستہ ہوتا ھے"۔۔

نظامِ سرمایہ داری اور اس میں مسائل کا حل ؟۔۔۔ ہاتھی کو پالنا اور کبھی کبھی اس کی دُم کا ٹکڑا کاٹ دینا ۔۔۔۔۔ مگر اصل کام اور ضرورت تو ہاتھی کو مارنے کی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے اکثریتی محنت کش طبقہ کے غریب ، محروم اور مظلوم عوام سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کی خباثت کی جس چھتر چھایا کے تلے جن حالات میں رہ رھے ہیں۔ ان کو اگر درج ذیل دو اشعار میں ھی بیان کردیا جائے تو کافی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔

1) اس قدر خوف ھے شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ بھی سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ

2) جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ھمارا حوصلہ دیکھو ھم ایسے گھر میں رہتے ہیں

مگر اصل المیہ ھی تو یہی ھے کہ ھم اس نظام کی نفسیات اور دانش کے ہاتھوں مرعوب و شکار ہو کر محض اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ایک طرف خود کو درپیش کرب و آلام کی مالا جبتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف لاشعوری اور غیر محسوس انداز میں اسی خبیث نظام کی خوراک بنے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سب کوئی آٹو میٹک( خود کار ) طور طریقوں سے نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ اس کے پیچھے وہ سب کاوشیں اور کوششیں شامل ہوتی ھیں کہ جو سرمائے کے پروردہ با قاعدہ منصوبے کے تحت کرتے ہیں۔ جسکی وضاحت عظیم فلاسفر اور انقلابی استاد کارل مارکس کے نظریات میں اس طرح ملتی ھے کہ ” جو طبقہ حکمران ہوتا ھے خیالات بھی اسی کے حکمران ہوتے ہیں۔ سو حکمران اپنے ان خیالات کی ترویج اور تسلط اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، درسی کتابوں کے نصاب اور سرکاری وظیفہ پر چلنے والے مذھبی اداروں کے ذریعہ جاری رکھتے ہیں ۔”
یہی وجہ ھے کہ محروم و مظلوم طبقہ اپنے محرومی و بے بسی کو اپنی تقدیر کا لکھا اور اس کے مقابلے حکمرانوں کے وسائل ، ان کی عیاشی کو خدا کی رضا سمجھتا رہتا ھے۔۔۔۔۔۔

اور پھر اپنے آدرشوں و امنگوں کے انہی قاتل حکمرانوں کو مسیحا بھی سمجھتا رہتا ھے۔ اسی لئے تو غریب اور مظلوم اپنے سامنے کسی نو مولود کو گلی کی نکڑ کے کسی گند کے ڈھیر پر پڑا ہوا، آٹھ ماہ کی بچی کو مسلتا ہوا یا نو سال کی بچی کو کاروکاری کے ہاتھوں سنگسار ہوتا ہوا، معصوم بچوں کو راہ چلتے اغوا ہوتا ہوا، اغوا کے بعد کسی کھیت میں مردہ پایا ہوا، بم دھماکوں میں اپنے جیسے بے لباس لوگوں کے چیتھڑے ہوا میں اڑتے ہوئے، ہسپتال میں دواؤں کی عدم دستیابی کی وجہ سے چیخوں اور کراہوں کے بعد میتیں اٹھاتے ہوئے، پولیس کو چوروں کیساتھ ملتے ہوئے، عدالتوں میں دھکے کھاتے ہوئے، قانون ساز اداروں میں ریا کارانہ بک بک سنتے ہوئے، فصلیں جعلی زرعی ادویات سے برباد ہوتے ہوئے، اولاد کو تعلیم سے محروم یا بیروگاری کی بیکاری کی وجہ سے منشیات کا شکار ہوتے ہوئے، بیوی بہو اور بیٹی کو تنگدستی سے اکتا کر بچوں سمیت نہروں میں چھلانگ لگاتے ہوتے دیکھتا ھے تو زیادہ سے زیادہ کڑھتا ھی ھے اور اسی کڑھن میں یہی رسمی باتیں کہتا ھے کہ فلاں کو پھانسی دو، فلاں کو سرِ عام گولی مارو۔فلاں کو نشانِ عبرت بنادو اور بس۔۔۔۔۔۔۔

اس پر میڈیا اسی جگالی کے پروگرام تب تک کرتا ھے جب تک کوئی اور غیر انسانی واقعہ رونما نہیں ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔ پھر واقعات ہوتے رہتے ہیں، مذمتیں جاری رہتی ہیں اور عبرتناک سزاؤں کے مطالبوں کا گھن چکر چلتا رہتا۔۔۔۔۔۔۔
مگر دوسری طرف ہر اغواء، ہر زناء، ہر آبرو ریزی، ہر چوری، ہر ڈاکہ اور قتل کا ہر واقعہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھی کی خوراک بن کر اسکے پلنے اور پھلنے پھولنے کا سبب بنتا رہتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔
نظام سرمایہ کی اسی واردات بارے بھی کارل مارکس نے کہا تھا کہ ” سرمایہ داری کے پاس اپنے آپ کو بچانے کیلئے ایک چور راستہ ہوتا ھے”۔۔

اب ضرورت اس امر کی ھے کہ سرمائے کا چور راستہ بند کیا جائے۔۔۔ یعنی ماتم بند کیا جائے، کڑھنا بند کیا جائے، رہزنوں کو راہنما سمجھنا بند کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور

خود کو حقیقی سائنسی نظریات سے لیس کر کے بالادست طبقے کی رنگ، نسل، ذات پات ،مسلک و مذہب اور قوم و وطن کی ہر تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے منظم ہوا جائے۔ انقلابی نعرے بلند کئے جائیں۔ احتجاج کو رواج دیا جائے اس اظہار کیساتھ کہ

ہر ایک گھر میں دیا جلے اور اناج بھی ھو
اگر نہ ھو کہیں ایسا تو پھر احتجاج بھی ھو

بالآخر اس خبیث سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے خاتمے کی لڑائی لڑنے کی جدوجہد کا عزم کرتے ہوئے اس لڑائی کو حتمی فتح سوشلسٹ انقلاب کے سرخ سویرے تک لڑا جائے۔۔

About The Author