ملک بھر میں جمعہ 29نومبر کو یوم طلباء منایا گیا۔ ترقی پسند فہم کے حامل طلباء وطالبات نے تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز کی بحالی کیلئے جلوس نکالے۔
مختلف شہروں میں سیاسی جماعتوں’ مزدوروں’ کسانوں اور دیگر طبقات نے طلباء کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہوئے ان کے جلوسوں میں شرکت کی۔
ہمارے بعض دوست سوال اُٹھا رہے ہیں کہ یہ اچانک اتنے منظم انداز میں طلباء یونینز کی بحالی کی تحریک کیسے شروع ہوگئی؟۔
سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر طلباء یونینز کی بحالی کے حق اور مخالفت میں دلائل کا انبار ہے۔
ایک رائے وہی پرانی ہے کہ طلباء کا کام صرف پڑھنا ہے، یونین سازی سے تعلیمی اداروں کا پُرامن ماحول متاثر ہوتا ہے۔
طلباء تحریک کے حامی کہتے ہیں طلباء یونینز پر پابندی نہ لگتی تو تربیت یافتہ نئی نسل سیاسی عمل کا حصہ بنتی رہتی جس سے دستیاب سیاسی جماعتوں کے اندر خاندان غلاماں والی صورتحال پیدا نہ ہو پاتی۔
حالیہ طلباء تحریک کی مخالفت کرنے والے 1980 اور 1990ء کی دہائیوں میں تعلیمی اد اروں میں پیدا شدہ حالات’ متحارب گروہوں کے جھگڑوں اور دیگر واقعات کو جواز بنا کر یونینز کی بحالی کو سازش قرار دے رہے ہیں۔
ہر دو آراء کے بیچوں بیچ اس تحریر نویس طالب علم کی رائے یہی ہے کہ طلباء یونینز بحال ہونی چاہئیں۔
تعلیمی اداروں کے اندر یونینز کے قیام’ انتخابی عمل اور دیگر امور کیلئے ضابطۂ اخلاق وضع کرلیا جانا چاہئے۔
جہاں تک لڑائی جھگڑوں اور دیگر الزامات کا تعلق ہے تو انہیں بھی بطور خاص سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر جب طلباء یونینز ہوتی تھیں تب بھی مختلف الخیال طلباء تنظیموں کے حامیوں کے درمیان جھگڑے ہوئے متعدد ناخوشگوار واقعات بھی لیکن پابندیوں کے بعد کیا زم زم بہنے لگا؟۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طلباء یونینز کا کردار بہت اہم ہے۔
ان یونینز نے سیاسی عمل کو بے مثال سرمایہ فراہم کیا’ ایوبی آمریت اور اس سے قبل صبح وشام بدلتی حکومتوں کیخلاف سیاسی احتجاج کا ہر اول دستہ طلباء ہی رہے۔ سوال یہ نہیں کہ کیا طلباء سیاست سے تعلیمی نظام متاثر ہوتا ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ وہ کیا بات ہے کہ طلباء یونینز پر پابندیوں (1982ء میں پابندیاں لگیں) کے بعد سے اب تک اس تعلیمی نظام نے کیا تیر مار لئے؟۔
پاکستانی سیاست کے درجنوں معروف کردار طلباء سیاست یعنی یونینز کے عمل سے اُبھر کر آئے ان میں معراج محمد خان’ پروفیسر این ڈی خان’ شفیع نقی جامعی’ حسین حقانی’ سید علی جعفر زیدی’ حبیب اللہ شاکر’ اسفندیار ولی خان’ قادر مگسی’ افراسیاب خٹک’ مرحوم جہانگیر بدر’ جاوید ہاشمی’ لیاقت بلوچ’ حفیظ خان’ خود موجودہ صدر مملکت عارف علوی بھی شامل ہیں
‘ یہ محض چند نام ہیں ورنہ فہرست بہت طویل ہے۔ طلباء سیاست میں تشدد کے درآنے کی ذمہ دار صرف سیاسی جماعتیں نہیں ریاست کا بھی اس میں بہت کردار ہے۔
دونوں کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہئے اور کھلے دل کیساتھ یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ پُرتشدد دور یونینز کے زمانے کے مقابلہ میں پابندیوں کے زمانے میں زیادہ طویل ہے’ افسوس کہ اجتماعی یا انفرادی سطح پر کبھی یہ کوشش نہیں ہوئی کہ تعلیمی اداروں کو کسی خاص فہم کی طلباء تنظیم کی چھائونی نہ بننے دیا جائے۔
المیہ یہ ہے کہ ریاست نے اول دن سے ترقی پسند فہم کو زہرقاتل قرار دیا۔
آج تعلیمی اداروں کی حالت سب کے سامنے ہے تو سیاسی عمل میں بھی تربیت یافتہ نئی نسل کی بجائے’ مالکان (ریاستی وجماعتی) کے وفاداروں’ ٹھیکیداروں اور دیہاڑی بازوں کا راج ہے۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 1980ء کی دہائی کے آخری برسوں سے تعلیم کو آگہی کی بجائے کاروبار بنانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی آج اپنے چار اور نگاہ دوڑا کر دیکھ لیجئے’ بڑی بڑی تعلیمی کاروباری ایمپائر کا دھندہ خوب چل رہا ہے مگر نئی نسل کی اکثریت سماجی’ سیاسی اور معروضی حالات کے حوالے سے شعور سے بے بہرہ ہے۔
بنیادی طور پر تعلیم کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکومت اس حوالے سے سب سے کم دلچسپی کیساتھ خیرات کی طرح فنڈز دیتی ہے۔
یہ صورتحال افسوسناک ہے،
مجموعی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
ان کچلے ہوئے طبقات کے بچوں پر تعلیمی اداروں کے دروازے کیسے کھلیں گے؟
طلباء یونینز کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے کم ازکم ایف اے، ایف ایس سی تک مفت تعلیم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم کو بہتر بنایا جائے، تعلیمی تجارت بند کروائی جائے، اچھا یہ مطالبات غلط کیسے ہیں۔
کل ایک دوست کہہ رہے تھے’ بہت نقصان ہے جی طلباء سیاست کا’ میں نے عرض کیا جن نقصانات سے بچنے کیلئے بقول آپ کے پاکستان بنایا گیا تھا کیا بہتر سالوں میں ان سے بچا جاسکا؟
کیا ہم نے نئے استحصالی طبقات پیدا نہیں کرلئے؟
بہت ادب کیساتھ عرض کروں پابندیاں نہیں اصلاحات خرابیوں کا حل ہوا کرتی ہیں۔
طلباء کیلئے سیاسی عمل کو شجرممنوعہ سمجھنے قرار دینے والے سیاسی نظام کو جمہوری اقدار پر منظم ہوتا دیکھنے کی بجائے شخصی وفادارویوں پر استوار رکھنا چاہتے ہیں۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ سابقہ افغان جہاد کے برسوں میں جو خرابیاں تعلیمی اداروں میں درآئیں وہ کیسے درست ہوں گی؟
مجھ طالب علم کی رائے بہرطور یہی ہے کہ ضابطۂ اخلاق کیساتھ طلباء یونینز بحال ہونی چاہئیں۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے طلباء یونینز سے پابندی اُٹھانے کا اعلان کیا، یہ اعلان عمل کی طرف نہ بڑھ پایا
خود پیپلز پارٹی نے گیارہ سال بعد سندھ اسمبلی میں اس کیلئے قانون سازی کی۔
مکرر عرض ہے تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز بحالی کا مطالبہ لیکر میدان عمل میں آنے والے بچوں اور بچیوں پر آوازیں کسنے’ برگر بچے کہنے یا ان کی بھد اُڑانے کی بجائے ان کی بات سنی جانی چاہئے۔
پیپلز پارٹی والے پچھلی شام سے ان جلوسوں پر برہم ہیں انہیں ایک نعرے پر اعتراض ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کے جو حامی اور پی ایس ایف کے سرگرم طلباء جلوس میں موجود تھے انہوں نے منتظمین تک اپنے جذبات پہنچائے؟
اہم بات یہ ہے کہ ایسے اجتماعی پروگراموں میں مختلف الخیال لوگ موجود ہوتے ہیں کیا لازم ہے کہ وہ سارے پی پی پی کے حامی ہوں گے تو ترقی پسند سمجھے جائیں گے ورنہ غدار اور عوام دشمن؟۔
ہمارے بعض دوست سوال اُٹھا رہے ہیں کہ یہ اچانک اتنے منظم انداز میں طلباء یونینز کی بحالی کی تحریک کیسے شروع ہوگئی؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ