نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ میں فصل بہار کی آمد ۔۔۔گلزار احمد

واقعہ یہ تھا کہ اس زمانے ابھی مصنوعی کھاد استعمال نہیں ہوتی تھی اور دیسی کھاد کچرا جمع کر کے بنائی جاتی تھی

ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں چار ماہ گرمی ۔ چار ماہ سردی۔دوماہ بہار اور دو ماہ خزاں کے موسم ہوا کرتے تھے۔آجکل ڈیرہ میں دس ماہ سخت گرمی اور دو ماہ سردی تو کم مگرگرمی نہیں ہوتی جسے اب فصل بہار کی طرح منایا جاتا ہے۔اس نومبر کے مہینے میں تو شادیوں اور ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا جیسے بند ٹوٹ پڑا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے اب ڈیرہ کی دس ماہ کی شدید گرمی ہماری زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دے گی اس لیے سارے کام ہم نے دو مہینوں میں سرانجام دینا ہیں۔گذشتہ رات ہمارے ملک کے ممتاز شاعر اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر رحمت اللہ عامر نے شھر کے ادیبوں ۔شاعروں اور صحافیوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو ڈیرہ کے دانشوروں کی پوری کریم cream موجود تھی۔

ممتاز براڈکاسٹر احسان بلوچ اپنی دلنشین مسکراہٹ کے ساتھ مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ احسان بلوچ اگر آپ کو ایک دفعہ مل جائے تو وہ اپنی پیاری مسکراہٹ بھری باتوں سے ساری زندگی کے لیے آپ کا دل موہ لیتا ہے۔ جمشید ناصر اور رحمت اللہ عامر نے تو لوگوں کی فرمائش پر اپنا کلام سنا کر محفل کو گل و گلزار بنا دیا۔

ثنا اللہ شمیم ایڈوکیٹ ہائی کورٹ اعلی پاۓ کے شاعر اور ادیب ہیں ان کے بغیر محفل پھیکی پھیکی رہتی ہے وہ کم بولے مگر بڑی دانش اور ادب و آداب کے ساتھ محفل لوٹ کے چل دیے۔ طاہر شیرازی ہمارے دھرتی کے عظیم شاعر اور ادیب مگر محفل کی جان ہیں ۔ ان کی پوسٹوں سے میں روزانہ کچھ سیکھتا رہتا ہوں ۔عشائیہ کی محفل کو تو انہوں نے ایسا سجایا کہ اٹھنے کو دل نہیں کرتا تھا۔

اعتدال کے چیف ایڈیٹر عرفان مغل صاحب سے میری واقفیت دو سال پرانی ہے مگر وہ ٹانک سے ڈیرہ آے تو اپنی محبت بھری شخصیت کی وجہ سے ایسے چھا گیے کہ شاید ہی شھر کی کوئی محفل ان کے بغیر مکمل ہوتی ہو۔

عنایت عادل اور ابوالمعظم ترابی آسمان صحافت کے ستارے تو ہیں مگر نوجوانوں کی ویلفیر انجمنوں کو ایسے سنبھال رکھا ہے جیسے ماں بچوں کو سنبھالتی ہے۔محمد زبیر بلوچ ڈیرہ کے سماجی اداروں کی خدمت کے شہسوار دن رات خدمت خلق میں دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں۔زبیر بلوچ کا دل اور دفتر ادبی سماجی اور ویلفیر تنظیموں کے لیے دن رات کھلا رہتا ہے ۔

ارشاد حسین شاہ۔ موسی کلیم دوتانی ۔خوشحال ناظر۔ڈاکٹر اخلاق احمد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ادب کی ترویج کو ڈیرہ میں اس وقت بھی تھامے رکھا جب یہاں بم دھماکوں کا طوفان بدتمیزی برپا تھا۔ ان کی خدمات عرصے تک یاد رکھی جائینگی۔

عشائیہ میں ایک اور ہر دلعزیز سماجی شخصیت ایس پی ریٹایرڈ انواراللہ بھی موجود تھے جن کی محبت میں وہاں کے مکینوں نے اس محلے کا نام بھی انہی کے نام پر رکھا ہوا ہے ہم بھی ان کی محبت سے متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکے۔ لالہ محمد یونس جو ہر ادبی محفل کی جان تصور کیے جاتے ہیں وہ بھی اس محفل میں موجود تھے۔

حاضرین محفل میں ممتاز ادیب و شاعر حفیظ اللہ گیلانی اور سعید احمد سیال کی غیر موجودگی کو بہت مِس کیا گیا۔ کیونکہ یہ دونوں علیل ہیں اور ان کی جلد صحت یابی کی دعا کی گئی۔ بات ڈیرہ کے چار موسموں سے شروع ہوئی تھی۔

ڈیرہ کا ہر موسم اپنے اندر ایک ادا ء دلربانہ رکھتا تھا جس کو بیان کرنے کے لیے کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ایک ساون کو لے لیں۔ ڈیرہ میں ساون کا مہینہ ایک رومانس اور خوشبو کے ساتھ داخل ہوتا اور محبت اور الفت کی داستانیں رقم کر کے رخصت ہوتا۔شاعروں کے لکھے گیت۔نغمہ نگاروں کی دھنیں۔گلوکاروں کی رس بھری محبت کی آوازوں میں ڈھل جاتے اور پھر ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے۔ ساون ہماری ڈیرہ کی ثقافت کا حصہ تھا جب چوٹیوں والے سفید بادل شھر کی مشرقی طرف سے امڈے چلے آتے اور رم جھم پھوار شروع ہو جاتی ۔

باغوں میں جھولے لٹک جاتےاور کوئیل کے نغمے چار سو پھیلنے لگتے۔ ساون ہی کے مہینے درختوں پر میٹھے جامن کا پھل آتا اور ہم خطرناک درخت کی ٹہنیوں پر چڑھ کر تازہ بارش میں دھلے بہت شیریں کالے شمور جامن کھاتے۔ جامن پھل کو بیچنے والے سر پر اٹھاۓ جامن کے تھال گلیوں میں گھومتے طرح طرح کے نغمے گا کر ہوکا دیتے۔ ساون کی بارش جب رَج کے برس لیتی تو ہم گاٶں کی ہَل ماری زمینوں میں کچھ تلاش کرنے نکلتے۔

واقعہ یہ تھا کہ اس زمانے ابھی مصنوعی کھاد استعمال نہیں ہوتی تھی اور دیسی کھاد کچرا جمع کر کے بنائی جاتی تھی۔ ہر گھر کا کچرا اٹھا کر کسی نشیلی زمین میں جمع کیا جاتا جو بکٹیریا کے ذریعے خود قدرتی کھاد میں تبدیل ہو جاتا اور پھر زرعی زمینوں میں بکھیر دیا جاتا اس کو آجکل Organic کھاد کہتے ہیں۔ اب اس کچرے نما کھاد میں ہر گھر کی گری پڑی گمشدہ اشیا بھی جیسے سونے چاندی کی چھوٹے زیورات۔کوڈیاں۔

قنچے وغیرہ آ جاتی تھیں جو زرعی زمین میں پہنچ جاتیں۔ساون کی تیز بارش سے یہ اشیا خود بخود ہل شدہ زمین کی سطح پر آ جاتیں۔مجھے یاد ہے بچپن میں ہم لڑکوں نے سونے چاندی کے کانٹے۔مندریاں۔کوڈیاں ۔قنچے ۔ہاتھی دانت کی بنی چھوٹی اشیا کئی بار ساون کی بارش کے بعد زمین سے چن لیں اور بعض تو سونے کی چیزیں بہت قیمتی ملتیں۔

پھر ہم لڑکوں کا رخ جھاڑیوں کے نیچے کھمبیاں نکالنے پر ہوتا جو ساون میں تاج محل آگرہ کے سفید چمکتے دمکتےمیناروں کی طرح اچانک اُگ آتیں۔ کھمبیاں اکثر تو ہم انڈوں کے خوگینہ کی طرح پکا کر کھاتے مگر کچھ لڑکے کھمبیوں کو دھاگے میں پرو کر ہار بناتے اور شھر میں بیچ کر اچھی قیمت پاتے۔
اگرچہ اب وہ موسم تو روٹھ گیے مگر غنیمت ہے اب یہ محفلیں باقی ہیں۔

About The Author