روز اول سے ہی ا نفرادی سطح ہو یا اجتماعی سطح انسانی معاشروں کی قسمت کا فیصلہ علم و عقل ہی کرتے رہے ہیں اور عصر حاضر میں بھی علم کی طاقت ہی اقوام کو مسابقت کے میدان میں سر خرو کر رہی ہے، جو قومیں جہالت کی فضا میں سانس لیتی ہیں وہ زندگی کے ہر شعبے میں گھٹن کا شکار ہو کر زوال کے گڑھوں میں گر جاتی ہیں. جب معاشرے کا ہر فرد علم سے محبت کرتا ہے اور اپنی نسلوں کو اچھی سے اچھی تعلیم دلاتا ہے تو اس کے اثرات قومی زندگی پہ بھی پڑتے ہیں اور بحیثیت مجموعی پوری قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔علم، تعلیم،شعور، حکمت، ادب، فنون لطیفہ اور تعلیم کے سمندر میں سفر کرنے کے لئے مطالعے کی ناؤ لازمی ہے اور اس سمندر کو عبور کرنے کی ایک ہی ناؤ ہوتی ہے اور وہ ناؤ صرف اور صرف کتاب ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ کتاب بہت اچھی ہم نشین اور رفیق ہے۔ کتاب علم سے بھرا ہوا خزانہ اور دانش مندی سے بھرا ہوا پیمانہ ہے۔ کتاب فطرت کی بخشی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے ، عقل و شعور کی صحیح طور پر راہنمائی کرنے اور انھیں پروان چڑھانے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ اس سے انسان معراج کمال پاتا ہےکتب بینی ہی انسان میں وسعت قلبی، رواداری اور روشن خیالی پروان چڑھاتی ہے
جس طرح کسی بھی زمین کی زندگی اور شادابی اس کے زرخیز ہونے سے مشروط ہے اسی طرح ایک معاشرہ ادب سے تمدن و تہذیب کا گہوارہ بنتا ہے۔ ادب و ادبی زوق کے بغیر معاشرے مردہ ہوتے ہیں، تہذیب و تمدن ادب کی اولاد ہیں ادب نہیں تو معاشرہ اس بنجر زمین جیسا ہوتا ہے جہاں خود رو جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔ جس طرح کیچوا زمین کو زرخیزکرنے میں اپناکردار ادا کرتا ہے اسی طرح ادب کا آکسیجن معاشرے کے شعور کو عروج عطا کرنے میں اپنا کردار اد کرتا ہے۔ ادب ہی ہے جو حسین تخیلات ،علمی وفکری اور شعوری سوچ کو الفاظ کا جامہ پہنا کر وجود فراہم کر کے زندگی کو جینے اور محظوظ ہونے کا جواز مہیا کرتا ہے
صاحبان فکر و قلم محترم گلزار احمد خان اور محترم ابوالمعظم ترابی صاحب اس حق بات کو بہتر جانتے ہوئے اور محسوس کرتے ہوئے کہ ادب جو کسی بھی سماج کا بلند تہذیبی ورثہ اور طرہ امتیاز ہو تا ہے ۔ جو اعلی ثقافتی اور معاشرتی اقدار کا محافظ اور اس کا بے باک غماز ہوتا ہے. اسئ ادبی ورثہ کو بچانے، تلاش کرنے، یکجا کرنے اور منظرِعام پر لانے کے لیئے یہ شخصیات اپنی پوری ٹیم کے ساتھ دن رات مصروفِ عمل ہیں کیونکہ ان کی محنتوں اور کاوشوں سے ہی ڈیرہ اسماعیل خان کی اور پچیس ہزار کتب پرمشتمل معروف مفتی محمود لائیبریری میں جناب شاہنواز صاحب نے ان کو علیحدہ ڈیرہ ادبی کارنر کے لیئے ضروری جزویات سے آراستہ دوسری منزل پہ علیحدہ ہال کمرےکا انتظام کر دیا ہےجو کہ شاہنواز صاحب کی ڈیرہ اور اسکے ادب سے لگاؤ کا ثبوت ہے۔
اب جبکہ جناب گلزار احمد خان صاحب اور ابو المعظم ترابی صاحب کی سربراہی میں قلمی وعلمی کاوشوں کو یکجا کرکے الگ ڈیرہ ادبی کارنر کا قیام ہو چکا ہے تو ہمارے ادباء، لکھاری ، قلمکاروں اور کتاب دوست شخصیات و خانوادہِ مرحومین ادباء سے خصوصی گزارش ہے کہ وہ اپنے دار ِ فانی سے کوچ کرنے والے ادیبوں کی اس ڈیرہ ادبی کارنر کو ایک تاریخی کارنر بنانے کے لیئے اپنی کتب ،قلمی نسخے عطا کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیئےکیونکہ پہلے قدم پہ کتابوں اور نسخوں کا اکٹھا کرنا اور بعد میں ای لائیبریری کا قیام ۔ یعنی ہر کتاب کو انٹر نیٹ کے زریعےدنیا بھر میں متعارف کروانا۔ ان حضرات کی کاوشوں سے جہاں عام قاری کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ادب کے بارے معلومات فراہم ہوں گی وہاں تحقیق کرنے والے طلباء کے لیئے بھی رہنمائی اور مواد کی آسانی کے ساتھ دستیابی ہو گی۔ ریڈیو ڈیرہ کے اسٹیشن ڈائریکٹر محمد نجم الحسن کا یہ اعلان بھی قابل ستائش ہے کہ ادبی پروگراموں کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں آسانی پیدا کرنے کے لیئے ڈیرہ ادبی کارنر کو ایک بہترین کارنر قرار دیا۔
محترم شاہنواز صاحب کی زیر نگرانی جس طرح مفتی محمود لائبریری میں خواتین اور بچوں کے مطالے کے لیئے علیحدہ جگہ اور کتب مختص کی گئی ہیں ،قابل ستائش ہے۔ اس کے ساتھ ایک گزارش ہے کہ ڈیرہ اسما عیل خان میں بصارت سے محروم طلباء جن کی انگلیاں تحریراور قلم تھامنے کی پہچان رکھتی ہیں کی بھی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو شعور کی آبیاری اور تحقیق کے لیئے مختلف عنوانات کی کتب پڑھنے کے
لیئے بریل کتابوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں کیونکہ انکی قوت خرید سے باہر ہیں۔ اگر مفتی محمود لائبریری میں بصارت سے محروم افراد کے لیئے بریل کتب کا انتظام کیا جائے تو یہ ایک انقلابی اور تاریخی قدم ہو گا.
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ