نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سر فروشی کی تمنا والے سرخے۔۔۔ذوالفقار علی

یہ بات کسی حد درست ہے کہ سرمایہ داری نظام میں فکری کمزوری ان کے دلائل سے مات کھا جاتی ہے مگر ان کی فکر کا عملی تجزیہ کرنے پر محسوس ہو گ

قسم سے سرخوں کے سر پر سینگھ نہیں ہوتے۔ یہ ہم جیسے دکھنے والے عام انسان ہیں، مگر جب ان سے گفتگو ہوتی ہے تو یہ فوکس نہیں کر ہاتھ اور بات کو بہت لمبا کر جاتے ہیں جس میں یہ سمجھنا محال ہو جاتا ہے کہ اصل میں یہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔
آجکل ‘طلبہ یونین’ کے نام پر نعرہ بازی کرنے والی یہ مخلوق سرخ سرخ ایشیا کی پریݨا اس بھیانک اور متشدد واقعہ سے لیتی ہے جس میں شکاگو کے بے گناہ مزدورں پر گولی چلا کر زمین کو سرخ کر دیا گیا تھا۔لال کا مطلب یہی ہے کہ اب اس دھرتی پر بھی خون کی ہولی کھیل کر اس کو لال لال کیا جائے۔او بھائی متشدد تحریکیں اس صدی میں ہرگز فتح یاب نہیں ہو سکتیں۔یہاں اب عدم تشدد پر مبنی تحریکوں کی ضرورت ہے جس کو گاندھی نے اپنایا تھا اور ایک بہت بڑی سامراجی طاقت کو اس عدم تشدد والی فلاسفی سے شکست دے کر یہاں سے نکال باہر کیا تھا۔
اصل میں ان کی سوچ جدلیاتی مادیت کی تھیوری کے گرد گھومتا ہے اور یہی تھیوری ان کے نظریات کی بنیاد ہے مگر لال لال کی اکثریت کو یہ پتا ہی نہیں کہ جدلیاتی مادیت کس بلا کا نام ہے۔ اس لئے یہ اپنے حوالے اور اپنی ذات کی بیگانگی میں گھرے رہتے ہیں اور جہاں رہتے ہیں وہاں کی تہذیب و ثقافت کو پسماندہ اور روایتی کی تہمتیں لگا کر عالمی استعماریت کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے مزدورو ایک ہو جاؤ۔جب ہم اپنا حصہ مانگیں گے تو ایک کھیت نہیں ایک باغ نہیں ساری دنیا مانگیں گے۔ بھائی ساری دنیا منگنے کا کیا مطلب ہے ؟ ہزاروں قسم کی تہذیب و ثقافتیں تمہارے قبضے میں آ کر صرف جدلیاتی مادیت کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ ورنہ ہمیں یہ تو بتا دو کہ آپ کا ماخذ کیا ہے اور آپ انسان، کائنات اور حیات کے مابین، ان سے ماقبل اور مابعد کے تعلق کا کیا عقیدہ رکھتے ہیں، آپ کے نزدیک ارتقاء کی حقیقت کیا ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہونے کے باوجود اس نظام سے حق کاہے کا مانگتے ہو بھائی؟ دراصل یہ موجودہ مسائل کی چھتری کے نیچے چھپتے ہوئے اپنی اصل فکر کی ترغیب کرتے ہیں۔ عام لوگ مسائل کے حل کے چکر میں انجانے میں انہیں اپنا محسن سمجھ لیتے ہیں کہ مسائل حل ہوجائیں گے مگر مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہو کر بڑھتے ہیں اور ان کی فلاسفی کا شکار شخص سب سے پہلے اپنے گھر سے پھر اپنی سوسائیٹی سے اور آخر میں اپنی ذات سے ہی کٹ کر رہ جاتا ہے اور وہ ایسا کل پرزہ بن جاتا ہے جو ہر وقت کسی نہ کسی کے ” ڳاٹے” میں فٹ ہونے کیلئے ہمہ تن گوش رہتا ہے۔
یہ بات کسی حد درست ہے کہ سرمایہ داری نظام میں فکری کمزوری ان کے دلائل سے مات کھا جاتی ہے مگر ان کی فکر کا عملی تجزیہ کرنے پر محسوس ہو گا کہ یہ کھوکھلے اور بے تکے ہیں۔ ان کی آخری لاجک یہی ہو گی کہ ہر مسئلے کا حل بس انہی کے نظریہ میں موجود ہے باقی سب بکواس اور فضول نظریات ہیں۔
یہ مادہ کو ‘واجب الوجود’ اور ‘اصل الفکر’ ماننے ہیں۔ دین کو انسان کے لئے افیون قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ مذہب دراصل انسان کو عملیت پسندی سے روکتا ہے حالانکہ مذہبی لوگ ان سے کہیں زیادہ عملیت پسںند ہوتے ہیں
شخصی آزادی ان کی طرف سے بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے مگر سرمایہ دارانہ نظام کی دی ہوئی اقتصادی اور مذہبی آزادیوں کا یہ انکار کرتے ہیں۔
جہاں کہیں بھی سماجی بے چینی اور سیاسی عرم استحکام ہو یہ اپنا نظریہ لے کر وہاں جا دھمکتے ہیں اور بڑے جذباتی اور دل کو موہ لینے والے نعرے لگاتے ہوئے مصیبت زدہ لوگوں کے دل میں نرم گوشہ پیدا کر کے غیر محسوس طریقے سے ان کو اپنا نشانہ بنانے ہوئے دامے درمے سخنے ان کی مدد کا یقین دلاتے ہیں مگر یہ بے آسرا اور ماضی میں ناکام ترین تجربات کرنے والے ہمارے کامریڈ دوست ان کو بھی بیچ بھنور میں چھوڑ کر کسی اور سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام والی جگہ کی تاڑ میں لگ جاتے ہیں۔
میرے عظیم انقلابیو، میرے دوستو میں صرف اپنا حصہ مانگنا چاہتا ہوں، اپنی زمین اپنی شناخت اور اپنے لوگوں سے جڑ کر۔میں اشتراکی استعماریت سے اتنا ہی نفرت کرتا ہوں جتنا میں توسیع پسندانہ سامراجیت اور سرمایہ داری سے کرتا ہوں۔۔رہے نام اللہ کا۔

About The Author