اسلام آباد: سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت 6ماہ بعد ختم نہیں ہوگی، 6ماہ میں نیا قانون لائیں گے، اس میں جو بھی مدت رکھی جائے گی وہ پارلیمنٹ کا صوابدید ہے۔
معاون خصوصی بیرسٹر شہزاد اکبر ، فردوس عاشق اعوان اور اٹارنی جنرل فروغ نسیم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس صاحبان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے رہنمائی کی ، آج جمہوریت کی جیت ہوئی ہے آئین اور قانون کی جیت ہوئی ہے ،مدت میں توسیع کیلئے پروسیجر وہی فالو کیاگیا جو سالہا سال سے فالو ہورہاتھا ،مدت ملازمت میں توسیع کا آغاز رات 12بجے سے ہوگا ،کی مدت ملازمت 6ماہ بعد ختم نہیں ہوگی، 6ماہ میں نیا قانون لائیں گے اس میں جو بھی مدت رکھی جائے گی وہ پارلیمنٹ کا صوابدید ہے،چھ ماہ تک قانون بنانے کے ساتھ جوڑ کر توسیع دی گئی ہے ،
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون بنے گا تو سب طے ہوجائے گا،پارلیمنٹ نے طے کرنا ہے کہ چھ ماہ بعد کیا قانون بنانا ہے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا جو ٹینیور ہوگا وہ پورا کریں گے ، اپوزیشن قانون پاس نہیں کرتی تو انہیں شایدتوہین عدالت بھی ہوجائے،
فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے اپنے ملک کیلئے رضاکارانہ طور پر استعفا دیا ۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ آئین کے ساتھ ڈٹ کرکھڑ ے ہیں۔ہمیں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کابھرپورساتھ دیناچاہیے۔عدالت نے جودرست سمجھا وہ کیا،ہم سب کوعدالت کااحترام کرناچاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور عدلیہ ملکی ادارے ہیں ان کادفاع کرناچاہیے۔ ملکی اداروں پرسیاست نہ کی جائے۔کوئی سمری مستردنہیں کی گئی۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا ہے کہ آج کا عدالتی فیصلہ تاریخی ہے ، اس سے آئندہ کیلئے ہمیں رہ نمائی ملے گی،عدالت نے کہا آرمی چیف کی مدت ملازمت اورطریقہ کا رکا قانون بنائیں۔ کیس ٹیک اپ ہواتو تین دن عدالت میں چلا اور مختلف قوانین پر بحث ہوئی ،کیس میں بہت سی چیزیں سامنے آئیں جن پر کسی عدالت نے اب تک فیصلہ نہیں دیاتھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ تقسیم سے قبل کا ہے ،کچھ ترامیم کے بعد عمل درآمد ہو رہاہے،1973 کے بعد سے اس کا کوئی قانون بنایا نہیں گیا،73کے آئین کے بعد کچھ آرمی چیفس کو توسیع دی گئی تھی ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پہلے کی طرح اس بار بھی ایک سمری بنائی گئی تھی اور اس میں کوئی نئی چیز شامل نہیں کی گئی تھی۔ یہ ایک فالو اپ تھا اور اس کو کسی نے نہیں دیکھا کیونکہ یہ کام روایتی طور پر ہورہا تھا اور اسی طرح روایتی طوپر ہی ایک نوٹیفکیشن بنادیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یہ بات کی کہ قانون میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ ایک آرمی چیف کا کس طرح تقرر ہوگا اور اس کی تقرری کی شرائط کیاہونگی۔ انہوں نے کہا کہ اس بحث میں آرٹیکل 243پر بڑا ذکر آیاہے اوردوسر اآرمی ریگولیشنز 255کا بھی بڑا ذکر آیاہے۔
انورمنصور نے کہا کہ حکومت نے دیکھا کہ عدالت آئین پر مکمل طور پر عمل در آمد کروانا چاہتی ہے ، حکومت بھی مکمل طو پر آئین پر عمل در آمد کا عہد لے کر آئی ہے اور عدالت بھی یہی کہہ رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب جو آخری نوٹیفکیشن آیاہے ،وہ عدالت نے قبول کرلیا ہے ، عدالت نے یہ لکھاہے کہ اس سلسلے میں قانون نہیں ہے اور اس حوالے سے حکومت قانون بھی بنائے جس میں آرمی چیف کے مدت اور شرائط کا ذکر ہوناچاہئے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بہت اہم پہلو ہے جو اس حکومت کے لئے بہت اعزاز کا کام ہوگا کہ اس حوالے سے قانون بنایاجائے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ