یہ ایک المیہ ہے کہ لوگوں نے مرتبے، حیثیت اور دولت کا استعمال ہمیشہ دوسروں کو نیچا دکھانے اور اپنے آپ کو سب سے اونچا اور معتبر منوانے کے لیئے ہی کیا۔ پیسہ اور عہدہ ہمارا رویہ تبدیل کردیتا ہے۔
محنت، ایمانداری، لگن، انسانیت کا درد، قربانی اور ایثار کا جذبہ ، وفا داری، دوسروں کی مدد اور کڑی محنت کے باوجود اللہ جس حال میں رکھے
اسی میں خوش اور مطمن رہنا وہ خصوصیات ہیں جس کے ہونے اور نہ ہونے میں بندے کا اپنا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ چند دن پہلے ایک دوست کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے بازار سے گزر رہا تھا کہ شہر کی ایک مشہور مارکیٹ کے داخلی دروازے کی نکڑ پر ایک چھوٹا سا کپڑا زمین پہ بچھا کہ اس پر ایک بزرگ چند جوڑے جراب،
اور ہاتھ کے رومال سجائے بیٹھا تھا۔ جب اس بزرگ پر نظر پڑی تو بغیر ضرورت کے اس سے جرابوں کی قیمت پوچھی تو جو اس نے بتائی اور مانگی بغیر کسی کمی بیشی کے اسکو فورا ادائیگی کر کے جرابوں کا جوڑا حاصل کر لیا۔
میرا دوست حیرت کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ آپ کو اس سے بھاؤ تاؤ کرنا چاہیے تھا۔ اندر مارکیٹ میں کسی بھی بڑی دکان پر یہی جرابیں آپکو دس پندرہ روپے سستی مل جاتیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس جرابوں کے کتنے جوڑے تھے؟ یہی کوئی آٹھ دس۔ اور رومال کتنے تھے؟ وہ بھی یہی کوئی آٹھ دس۔
میں نے کہا اب حساب کرو اگر وہ فی جوڑا بھی پندرہ روپے زیادہ کما رہا ہے تو دس جوڑوں کے حساب سے اس کی دن بھر کی کمائی عین ممکن ہے کہ ایک سو پچاس روپے بڑھ جائے لیکن میری طرح ہر کوئی اس سے منہ مانگے دام پر نہیں خریدے گا۔
مجھے اس بزرگ کو دس پندرہ روپے زیادہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر اس سے اس کا منافع کچھ بڑھ جائے گا تو وہ اپنے گھر کچھ زیادہ راشن ڈال لے گا، ہو سکتا ہے اس کے گھر میں خواتین، بچوں یا خود اس بزرگ کو دوا کی ضرورت ہو،
ہماری مدد کے اصل مستحق یہی لوگ ہیں جو محنت مزدوری کرتے ہیں اور بھیک نہیں مانگتے، ان کی مدد کرنے کا آبرو مندانہ طریقہ یہی ہے کہ ان سے بغیر بھاؤ تاؤ خریداری کرنی چاہیے، بلکہ ان جیسے لوگوں سے خریداری صدقہ جاریہ ہے۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہماری سودے بازی ان جیسے لوگوں اور خصوصا گلی محلوں میں پھرتے مختلف اشیاء بیچنے والےبچوں، جوانوں، بزرگوں یا ریڑھی بانوں سے ہی کیوں ؟ جو عام بازار اور مارکیٹ سے پانچ دس روپے منافع کے ساتھ اپنی چیزیں بیچ رہے ہوتے ہیں۔
اسی بزرگ کی طرح ریڑھی یا ہاتھوں پہ سامان اٹھا کر فروخت کرنے والا بچہ ، جوان یا بزرگ بھی غریب ہی ہوتا ہے۔ زاتی مشاہدہ ہے کہ جب کوئی شہری کسی بڑے سٹور یا برینڈ کی دکان یا شو روم میں جاتا ہے تو بھاؤ تاؤ کرنے اور نرخ پوچھنے تک کو اپنی ہتک سمجھتا ہے۔
وہ اپنے گرد ’’بظاہر‘‘ امیر نظر آنے والوں کو دیکھ کر خاموشی سے پیسے دے دیتا ہے کہ اسے غریب غرباء نہ سمجھا جائے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو لکھ پتی ثابت کرنے کے چکر میں ایسی جگہوں پر کبھی قیمت یا مہنگائی کا رونا نہیں روتا۔
میرے خیال میں یہ سب اس ایک فیصد امیر طبقے کی پیروی کا نتیجہ ہے جس کو قیمت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے اپنے کئی ایک متوسط اور سفید پوش دوستوں کو دیکھا کہ وہ برینڈڈ جیکٹ، واسکٹ یا جوتوں پیزا، برگرز وغیرہ پر ہزاروں خرچ کر دیں گے۔
لیکن زمین پہ بیٹھے بیچنے والے، چھوٹی ریڑھی والے یا گلی محلے میں پکوڑے چپس، چھولے، بچوں کے غبارے یا سبزی خریدتے ہوئے انہیں فورا مہنگائی یاد آ جاتی ہے۔ بلکہ یہ غریب، مسکین ان کو لٹیرے ہی نظرآتے ہیں
جو گاہک نہ ہونے اور اشیاء نہ بکنے پر آوازیں لگاتے اور لوگوں کی منتیں کرتے یا پھر سر کو جھکائے خاموش بیٹھے نظرآتے ہیں۔ خدارا ایسے بزرگوں اور ضروتمندوں سے بغیر ضرورت کے بھی پندرہ بیس روپے والی چیزیں خرید لیا کریں،
کبھی جرابیں، کبھی ابلے ہوئے انڈے، کبھی مکئی کے دانے، کبھی موٹھ، کبھی پکوڑے اور کبھی ٹافیاں غبارے وغیرہ۔ اگر استعمال نہیں کرتے تو خرید کر کسی مستحق کو دے دیں۔جو لوگ محنت کر رہے ہیں اور ایمانداری سے روزی کما رہے ہیں،
آپ کے فالتو پیسے کے زیادہ حقدار وہ ہیں بہ نسبت ان تمام ناجائز منافع خوروں کے جو دو نمبری کر کے آپ سے پیسے لوٹنے کے چکر میں ہیں۔
اپنی ضروریات محدود کریں اور اپنا دل بڑا کریں۔ میں نے سوچا، یہ صرف سوچنے کے انداز کا فرق ہے، آپ بھی ایسا ہی سوچا کریں اور عمل کیا کریں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر