مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئین ، آئین ، آئین۔۔۔۔ ؟ کیا ھے یہ آئین ؟ رؤف لُنڈ

اس زندگی کا اپنا ایک آئین ھے کہ جسے ابھی بننا ھے اور اسے ھم نے ھی بنانا ھے

ائین ، آئین ، آئین۔۔۔۔ ؟ کیا ھے یہ آئین ؟ کس کا ھے یہ آئین۔۔؟ کون بناتا ھے یہ آئین ؟ کیا کیا ہوتا رہا ھے اور ہو رہا ھے آئین کیساتھ ؟ ۔۔۔۔ اس سب تماشے کے علاوہ بھی زندگی کا اک کردار ھے، اس زندگی کا اپنا ایک آئین ھے کہ جسے ابھی بننا ھے اور اسے ھم نے ھی بنانا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ھوگا کہ جس میں گذشتہ بہتر سالوں میں سب سے زیادہ تذکرہ جس چیز کا رہا ھے

وہ ملک کا آئین ھے اور دوسری طرف جس کو بنانے پر، چلانے اور بچانے کے نام پر، سب سے زیادہ جسے رگیدا گیا ھے، جس کا ستیا ناس کیا گیا ھے اور بات بات پہ جس کی توہین کی گئی ھے وہ بھی آئین ھی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوری دنیا میں آئین کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ "آئین کی بالادستی میں ھی سماج کی بھلائی مضمر ھے”۔ ” آئین موم کی ناک کیطرح ہوتا ھے اسے جب چاہیں اور جس طرف چاہیں موڑ دیں”-

آئین مکڑی کے جالے کیطرح ھوتا ھے جس میں کمزور پھنس جاتا ھے اور طاقتور نکل جاتا ھے”۔ آئین کے ہوتے ہوئے ہمیشہ غیر آئینی کام کی گنجائش موجود ہوتی ھے”۔۔۔۔۔۔ آئین کی ان سب تعریفوں کے ہوتے ہوئے آئین کے بارے سب سے زیادہ حقیقی، سائنسی،

آسان اور سمجھ آ جانیوالی آئین کی تعریف انقلاب روس کے بانی ولادیمیر لینن نے ان الفاظ میں کی کہ ” کوئی بھی آئین آخری تجزئیے میں اسی طاقتور طبقے کا وفادار ہوتا ھے جو طبقہ اسے بناتا ھے اور چلاتا ھے”۔۔۔۔۔ اور آئین میں محروم لوگوں کے مفادات درج تو ہوتے ہیں مگر ان کے حصول کی گارنٹی/ضمانت نہیں ہوتی”۔۔۔۔۔

اب مملکتِ خداداد پاکستان کے آئین کو درج بالا تعریفوں اور حقیقتوں کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جائے تو پاکستان بیک وقت ان ساری تعریفوں کا ملغوبہ نظر آتا ھے۔۔۔۔ اس پر مستزاد یہ المیہ بھی کہ پاکستان میں تو جنگل اور جانوروں کے "مارشل لاء ” کو بھی آئنی تقدس حاصل رہا ھے۔۔۔۔۔۔ اب پاکستان میں آئین کے نفاذ بارے ایک لطیفہ،

ایک دفعہ دو دوست بازار سے گذر رھے تھے کہ پاس ھی گنے کی ریڑھی کے ٹیپ سے ریکارڈ شدہ آواز گونج رہی تھی۔۔ بیس روپے گلاس، بیس روپے گلاس۔۔۔ خود بھی پِئیں اور دوستوں کو بھی پلائیں۔” یہ سن کر راہ چلاتے ان دوستوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کے دیکھا اور کہا کہ ”

دوستوں کیوجہ سے ھی تو ھی یہ جوس خود نہیں پیتے”۔۔۔۔۔۔ اس لطیفے کی روشنی میں پاکستان میں محروم، مظلوم اور غریب لوگوں کو کچھ دینے کی بجائے پاکستان کا حکمران بالادست طبقہ آئین سے کھلواڑ کرتا رہتا ھے۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ھے کہ آئین میں بہ امر مجبوری عام لوگوں کے حقوق بارے درج کر دی جانیوالی ان شقوں پر سے توجہ ہٹانے کیلئے آئین کی ایسی شقوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ھے

جن کا تعلق محض صدر، آرمی چیف ، وزیراعظم، گورنرز، وزراء، سینیٹرز، ممبران پارلیمنٹ، سپریم اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور ججوں کی تقرری اور مراعات کی محافظ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ آئین کی ان رونقوں میں اگر کہیں کہیں بھٹہ مزدوروں، فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنیوالوں، کھیتوں میں رزق اگانے والے کسانوں ، ڈاکٹرز، اساتذہ، کلرکس، ریڑھی بانوں، سڑک پر پتھر ڈھونے والوں ،

سکول کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کی بھاری بھرکم فیسوں، تعلیم کی تجارت کو فروغ دینے والے ناروا ٹیسٹوں، تعلیمی اداروں میں طلباء کی یوننز کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد جیسے حقوق کی بات آ جائے تو بالادست طبقے کی وہ ناگواری دیکھنے جیسی ہوتی ھے جس کا ظالمانہ اظہار وہ غریبوں، مظلوموں،

مزدوروں،کسانوں پر لاٹھیوں گولیوں کی بارش کر کے، ان کو قید کر کے، ان کو ملازمتوں سے برخاست کر کے اور ان کے طالب علم بچوں کو تعلیم سے محروم کرکے، ان کی تعلیمی ڈگریاں منسوخ کر کے اور ان کو تعلیمی اداروں سے نکال کر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وقت کی ضرورت ھے کہ پاکستان کے غریب، مظلوم، کسان ، مزدور اور طلباء پاکستان کے حکمرانوں کے بیکاری کے فلسفوں اور حکمرانی کے بیہودہ ناٹکوں کے اودھم اور دھول سے نکل کر اپنے آپ کو پہچانیں، ایک دوسرے کے قریب آئیں۔

بالادست طبقے کی بخشی ہوئی رنگ، نسل، مذہب و مسلک اور ذات و قوم کی نفرتوں کو دامن سے جھٹک دیں، اپنی اس طاقت کا ادراک حاصل کریں کہ جس کے سامنے ہر جبر ہیچ ہوتا ھے۔ خود کو منظم کریں۔ غیر طبقاتی سماج کے خاتمے اور سوشلسٹ سماج کی حتمی فتح کیلئے اصل لڑائی طبقاتی جنگ کے میدانِ عمل میں اتر کر اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا اختیار حاصل کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی اختیار وہ آئین لکھے گا

جو انسانوں اور انسانیت کو ظلم، زیادتی، بھوک، مہنگائی، بیماری، جہالت، لاعلمی، دربدری اور بے گھری جیسے دکھوں، اذیتوں اور ذلتوں سے نجات دلا کر ان کو تسخیر کائنات کرنے کے قابل بنا کر بجا طور پر ایک انسان کو انسان اور قابلِ فخر بنائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: