نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہلکی پھلکی بھوک میں ہلکا پھلکا "ٹک”… حیدر جاوید سید

محب مکرم مولانا فضل الرحمن نے مکرر اس دعوے کو دہرایا ہے کہ ''ان سے دسمبر میں حکومت کو رخصت کر دینے اور تین ماہ میں انتخابات کروانے کا وعدہ کیا گیا تھا''

محب مکرم مولانا فضل الرحمن نے مکرر اس دعوے کو دہرایا ہے کہ ”ان سے دسمبر میں حکومت کو رخصت کر دینے اور تین ماہ میں انتخابات کروانے کا وعدہ کیا گیا تھا” ان سے سوال ہوا یہ کیسے ہوگا؟ تو ان کا جواب تھا یہ میرا نہیں اُن کا مسئلہ ہے۔

وہ اب بھی اس دعویٰ پر قائم ہیں کہ آزادی مارچ نے مقاصد حاصل کر لئے ہیں۔ جواب آں غزل چھیڑتے ہوئے محترمہ فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ "کچھ بھی نہیں ہونے والا مولانا اپنے کارکنوں کو خواب بیچ رہے ہیں۔ حکومت چار سال بعد عوامی رائے ”انتخابات” کے نتیجے میں تبدیل ہوگی”

مولانا نے پس پردہ مذاکرات کی ایک بار پھر تصدیق کی اور کہا یہ کوئی انہونی بات ہرگز نہیں لانے والے ہی رخصت کرتے ہیں، اسی سوال پر پس پردہ مذاکرات ہوئے۔

فقیر راحموں کہتے ہیں کہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابی نتائج کے گھٹالے کا ذمہ دار قرار پانے والے اگر آئین سے ماورا کوئی اقدام کرینگے تو یہ ان قوتوں کیلئے کیسے قابل قبول ہوگا جو دستور اور جمہوریت کی بالادستی کے نعرے مارتی پھر رہی ہیں؟

سابق صدر مملکت اور پی پی پی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری نے سوموار کے روز اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو اور پی پی پی کے وفد سے ملاقات کے دوران ایک بار پھر طبی بنیادوں پر ضمانت کی رعایت کیلئے درخواست ضمانت جمع کروانے سے انکارکر دیا۔

جناب زرداری کا موقف ہے کہ من گھڑت مقدمہ میں نیب کی رنگ بازیوں اور وزراء کے سستے بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیب اور حکومت عدالتوں کے سامنے ثبوت پیش کرکے انہیں سزا دلوائیں یا پھر معذرت کریں۔

ملاقات کرنے والوں میں شامل پی پی پی کے ایک رہنما نے اس تحریر نویس کو بتایا کہ آصف زرداری کہتے ہیں کہ ”نیب اور حکومت کے تحریری معافی نامے کے بعد ہی رہائی قبول ہوگی”۔ پی پی پی کے رہنما سے میں نے پوچھا نیب کی حد تک تو بات درست ہے لیکن موجودہ حکومت معافی کیوں مانگے،

یہ تحقیقات تو 2015ء میں اس وقت کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے حکم پر شروع ہوئی تھی ؟ ان کا جواب تھا، گرفتاریاں (زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی) اس دور میں ہوئیں اور میڈیا ٹرائل بھی تحریک انصاف کی حکومت کروا رہی ہے اسلئے نیب اور حکومت الزامات ثابت کر کے سزا دلوائیں یا پھر معافی نامہ عدالت میں پیش کریں۔

آگے بڑھنے سے قبل پنجاب اسمبلی میں کل منظور ہونے والی ایک قرارداد پر بات کر لیتے ہیں۔ اس قرارداد میں منظوری دی گئی ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں ایک ہسپتال کا نام وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے والد فتح محمد خان بزدار کے نام پر رکھا جائے۔

سرائیکی وسیب اور وسطی پنجاب کے دوست سوموار کی دوپہر سے فقیر راحموں سے یہ دریافت کر رہے ہیں کہ فتح محمد بزدار مرحوم کی وہ کونسی قومی وعلاقائی خدمات ہیں جن کی بنیاد پر انہیں بعد ازمرگ یہ اعزاز بخشا جارہا ہے؟

فقیر راحموں کا جواب تھا،” سب سے بڑی خدمت تو یہی ہے کہ وسیم اکرم پلس عثمان بزدار ان کے بیٹے ہیں، دوسری خدمت یہ ہے کہ مرحوم نے زندگی بھر اپنے گاؤں میں بجلی داخل نہیں ہونے دی تاکہ کمی کمینوں کے گھروں میں روشنی نہ ہو سکے”۔ کچھ دیر قبل فقیر راحموں مجھ سے پوچھ رہے تھے شاہ جی!

تحریک انصاف کے لوگ کسی ادارے سڑک یا کسی اور مقام کو جو کسی مرحوم یا زندہ سیاسی رہنما سے منسوب ہو پر ہمیشہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کیا اُن کے باپ کا پیسہ لگا اس پر جو ان کا نام لکھ دیا گیا اب کیا ہے؟ ظاہر ہے اس سوال کا جواب بھی انصافی دوستوں پر واجب ہے ہم اس بکھیڑے میں کیوں پڑیں۔

جناب بزدار کے حوالے سے ہی ایک اور خبر یہ ہے کہ ان کے آبائی شہر تونسہ شریف میں سرائیکی زبان کے بلند پایہ شاعر جناب اقبال سوکڑی کیساتھ ایک شام منانے کی تقریب کے دوران نوجوان شاعر، دانشور اور متعدد کتابوں کے مصنف محبوب تابش کی تقریر اہل اقتدار کو ناگوار گزری اور تقریب میں شریک ڈی جی خان کے ڈی پی او نے موقع پر ہی محبوب تابش کو گرفتار کروا دیا۔

سرائیکی دانشور کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح وسیب بھر میں پھیل گئی۔ پولیس کے اس غیرقانونی عمل کی ہر طرف سے مذمت ہوئی، معاملہ ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر ساڑھے تین گھنٹے بعد گرفتار دانشور کو رہا کردیا گیا

مگر یہ بات عیاں ہو گئی کہ سرائیکی وسیب میں سرداروں، تمن داروں، مخدوموں اور جاگیرداروں کا جبر آج بھی ماضی کی طرح ہی ہے۔ ان کی طبع نازک پر تنقید ایٹم بم کی طرح گرتی ہے۔ بعض عدالتی فیصلوں پر دانش کے پھریرے لہراتے وفاقی وزراء کو جب عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تو جھٹ سے غیرمشروط معافی مانگ لی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فردوس اعوان اور غلام سرور خان کی معافی قبول کرتے ہوئے جو ریمارکس دیئے ہیں وزراء کا فرض ہے کہ اسے یاد رکھیں، مستقبل میں بولنے سے پہلے سو بار سوچ لیا کریں۔

فارن فنڈنگ کیس میں 5سال سے مختلف عدالتوں سے حکم امتناعی لینے والی تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن پی پی پی اور نون لیگ کیخلاف اس کی درخواستوں کی بھی سماعت کرے۔ دوسری طرف یہ خدشہ سامنے آرہا ہے کہ

دسمبر کے پہلے عشرے میں جب چیف الیکشن کمشنر ریٹائر ہو جائیں گے تو عضو معطل کی صورت لینے والے الیکشن کمیشن میں روزمرہ کے معاملات بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے، تو ایسے میں فارن فنڈنگ کیس کا کیا ہوگا۔ حکومت نے کمیشن کے جن دو ارکان کی نامزدگیاں کی تھیں انہیں غیرآئینی قرار دیا جا چکا۔

وزیراعظم اپوزیشن کے معاملے میں ایک خاص نفرت سے بھرے رہتے ہیں، ایسے میں الیکشن کمیشن کے غیرفعال ہو جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ بعض قانون دان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت حکومت الیکشن کمیشن کی آئینی طریقہ کار کے مطابق تشکیل سے گریزاں ہے۔

حکومت چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کو (اگر آتا ہے تو) عدالت میں اس نکتہ پر چیلنج کرے کہ چونکہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق مکمل نہیں اسلئے فیصلہ غیرقانونی ہے۔

بظاہر ان قانون دانوں کے موقف میں بہت وزن ہے لیکن دوسری طرف یہ سوال بھی غورطلب ہے کہ جس الیکشن کمیشن کو اپوزیشن 2018ء کے انتخابی گھٹالے کا کردار سمجھتی ہے اس سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں کروانا چاہتی ہے؟

حرف آخر یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے گزشتہ روز وفاقی وزیر شیخ رشید نے جو گفتگو کی وہ انسانی جذبوں، سیاسی اخلاقیات اور سماجی اقدار کے منافی ہے انہیں اپنے رویہ پر نظرثانی کرنی چاہئے۔

About The Author