نومبر ختم ہونے والا ہے، ابھی بھی کئی لوگ سویٹر نہیں پہن رہے۔ گرم پانی سے نہیں نہا رہے۔چلغوزے تو قوت خرید سے باہر ہیں لیکن مونگ پھلی نہیں خرید رہے۔ یخنی نہیں پی رہے۔ اُبلے انڈے نہیں کھا رہے۔ ائیر کولروں پر پلاسٹک شیٹ نہیں باندھ رہے۔
جوشاندہ نہیں پی رہے۔ دھوپ میں نہیں بیٹھ رہے۔ لنڈا بازار کا چکر نہیں لگا رہے۔ دستانے نہیں خرید رہے۔ اونی ٹوپیاں نہیں لے رہے۔ سردی سے کپکپا نہیں رہے۔ دانت نہیں بجا رہے۔ ہاتھ نہیں رگڑ رہے۔ مٹھی بند کر کے پھونکیں نہیں مار رہے۔ بھنے ہوئے چنے نہیں کھا رہے۔
ہائے موسموں کے ساتھ ساتھ وقت بھی بدل گیا ہے، انداز بدل گئے۔ ویسی سردیاں رہیں یا نہ رہیں۔ سردیوں کی محفلیں، گپیں باتیں، سب ماضی کا قصہ بن گئیں۔ سردیوں میں دھوپ سینکنے اور مل بیٹھنے کے دم توڑتے رواج اب کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔
ماضی میں شدید سردی میں بھی جذبے اور تعلقات گرمجوشی سے ہی بڑھتے رہتے تھے۔ ہمارے بچپن میں نہ تو موبائل فون عام تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ۔ لیکن سماجی رابطے آج سے زیادہ مضبوط تھے۔
ذرا غور کریں۔ آج ایک ہی گھر میں ایک ہی کمرے میں بیٹھے والدین اور بچے آپس میں گفتگو کرنے کے بجائے موبائل اور سوشل میڈیا پر حاضر ہوتے ہیں اور ٹینکنالوجی کی وجہ سے رابطے جہاں تیز اور آسان ہوئے ہیں وہیں روایتی اور ثقافتی کھیل،
تماشوں اور اکٹھ کا فقدان نظر آتا ہے۔ اب رات کے وقت گلی، محلوں کے تھڑوں اور پھٹوں پر چوپال نہیں لگتی۔ جہاں محلے میں آنے والے ہر نئے شخص کا پتہ چلتا تھا وہاں اب پڑوسی بھی انجان لگتا ہے۔
ڈیجیٹل دور کا انسان بھی اب ڈیجیٹل ہی ہو گیا ہے۔ خصوصا سردیوں کے موسم میں، ہمارے بچپن میں جب الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ ہماری زندگیوں میں شامل نہیں تھا یا یہ اس زمانے کی بات سمجھیں جب وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی بجائے ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرح ہر شہر کے گلی محلوں میں پُتلی تماشوں کی روایت زندہ تھی یعنی ا س وقت ایک کھیل بہت مقبول ہوتا تھا پتلی تماشہ۔
یہ کھیل کبھی گلی محلوں میں دیکھنے کو ملتا تھا تو کبھی سکول میں۔ یہ پتلی تماشے تو اب ماضی کا قصہ ہو گئے۔ پتلی تماشے کے لیے نہ اسٹیج کی ضرورت ہوتی تھی نہ بجلی کے کنکش کی، اگر ہوتی تو پھر یہ محفل لوڈ شیڈینگ کی وجہ سے کبھی منعقد ہی نہ ہو پاتی۔
اس دور میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ اوقات کار کی پابندی تھی، رات اس زمانے میں آرام کے لیے اور دن کام کرنے کے لیے ہوتا تھا۔ اسی میں لوگ چند لمحے تفریح کے لیے نکال لیتے تھے۔ اگر اس کے لیے کچھ چاہیے ہوتا تو ایک چار پائی،
جس پر چادر پڑی ہوتی تھی اس کی آڑ میں بیٹھ کر ایک شخص (جیسے اس کھیل کی زبان میں بالم کہتے تھے) تاروں میں بندھی ہوئی پتلیوں کو نچاتا، گھماتا تھا۔ دریائے سندھ کنارے سرکنڈوں کی بنائی جھونپڑیوں رہنے والے جوخانہ بدوش ہوتے تھے،
ان کی عورتیں اور مرد سردیوں کا موسم آتے ہی ہمارے محلوں میں آکر اپنا پتلی تماشہ دکھانے کے لئے مختلف گھروں میں جاکر وقت مانگتیں۔خاندان کے چندمرد یا عورتیں مل کر شام کے وقت گھر پر پتلی تماشہ کا پروگرام رکھ لیتے۔
پورے محلے کے بچوں میں یہ خبر بغیر کسی سوشل میڈیا کے منہ زبانی فوری طور پر پہنچ جاتی۔ متعلقہ گھر کے ویڑھے میں وقت سے پہلے تمام بچے اور پڑوس کی عورتیں پہنچ جاتیں۔ حویلی یا برآ مدے میں دری بچھائی جاتی،
دری کے پیچھے چارپائیاں اور کرسیاں رکھی جاتیں۔ بچے اپنے ساتھ مونگ پھلی اور مٹھڑیاں ساتھ لاتے۔ سب بچے جوان، لڑکیاں اور عورتیں اس پتلی تماشہ کے انعقاد پر بڑی خوش نظر آتیں کہ کافی عرصہ بعد انہیں یہ تماشہ دیکھنے کو ملے گا۔
گو کہ یہ پتلی تماشہ وقتاً فوقتاً گلی محلوں میں ہوتا رہتا تھا اور اکثر ہمیشہ ایک ہی کہانی ہوتی، اور تو اور لوگوں کو پتلیوں کے نام اور انکی ایک ایک حرکت اور ڈائیلاگ ازبر ہو چکے ہوتے مگر پھر بھی لوگ ہمیشہ اسی شوق و ذوق سے آتے جیسے یہ پتلی تماشہ پہلی بار ہو رہا ہو۔
پتلی تماشہ دکھانے والے ایک یا دو مرد اور ایک عورت بمعہ اپنے سازو سامان اور ڈھولک کے ساتھ پہنچ جاتے اور پھر بچے آگے بچھی دری پر بیٹھ جاتے عورتیں اور مرد علیحدہ علیحدہ چارپائیوں اور کرسیوں پر بیٹھ جاتے اور پتلی تماشہ والے اپنا سٹیج بنانا شروع کر دیتے۔
سٹیج کیا ہوتا ایک چارپائی کھڑی کر کے اس کے آگے کی طرف سے سات فٹ کی کوئی چادر لٹکا دیتے اور یہ مرد اور عورت اسکے پیچھے چھپ کے کھڑے ہوتے۔ اسٹیج کے سامنے سے نہ وہ خود نظر آتے تھے،
نہ انکی ڈوریا ں ہلانے والے ہاتھ۔ جب سٹیج تیار ہو جاتا تو ساٹھ واٹ کے بلب کی مدھم روشنی میں کپڑوں سے بنی ہوئیں خوبصورت رنگ برنگی پتلیاں، لوک گیت اور ڈھولک کی تھاپ پر ایک ایک کر کے پردے کے آگے اتاری جاتیں۔ یہ پتلیاں خوب ناچتیں،
لڑتیں جھگڑتیں، ان کے درمیاں بحث و مباحثہ اور مکالمہ ہوتا۔ سٹیج کے پیچھے بیٹھے خانہ بدوش فنکار ان پتلیوں کی ڈوری کو اپنے دونوں ہاتھوں کی ہر انگلی میں باندھے اپنے جادؤی انگلیوں کے زریعے حرکت دیتے اور آوازیں بدل بدل کر بولتے کہ دیکھنے اور سننے والوں کو لگتا جیسے یہ پتلیاں پس منظر کے بغیر خود بخود ہی بھاگتی پھرتی اور ناچتی ہیں۔ ہر پتلی اور گُڈے کا الگ نام ہوتا، ہر ایک کا الگ کردار ہوتا۔
یہ خانہ بدوش فنکار ڈائیلاگ اس مہارت سے بولتے تھے کہ دیکھنے والوں کو لگتا کہ اسٹیج پر ناچنے والی پُتلی و ہ ڈائیلاگ بول رہی ہے۔ ڈائیلاگ بولنے والے کے علاوہ ایک مرد بانس، ٹین یا ایکسرے کی فلم کو کاٹ کر بنائی ہوئی چھوٹی سی سیٹی منہ میں لئے خاص دھن میں خاص موقع پر تیز تیز بجاتا اور ناظرین کو یہ تاثر ملتا کہ سیٹی سے نکلتی تیز آواز گویا پتلیوں کی زبان ہے۔
جبکہ ان کے ساتھ آئی ہوئی عورت ڈھولک بجا کر زنانہ کرداروں میں جان ڈال دیتی۔ خانہ بدوشوں کا یہ گروپ پتلی تماشے کی صورت میں ثقافت اور تاریخ دونوں کو اپنے فن میں قید کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔
لوک کہانیوں اور اکبر بادشاہ ودوسرے مغل بادشاہوں کے درباری قصوں، انارکلی، بیربل، مرزا صاحباں، لیلا مجنوں، ہیر رانجھا کے کرداروں کو تماشے کا حصہ بناتے اور ان کرداروں کو ہاتھوں کی جنبش اور اپنی آواز سے زندہ کر دیتے۔
الگ الگ پتلیوں اور گڈوں کو وہ بیک وقت اس طرح نچاتے کہ دیکھنے والے اش اش کر اٹھتے تھے اور زور دار تالیوں اور سیٹیوں سے ان کے چلانے والے خانہ بدوشوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک آدھ گھنٹے کے اس تفریحی پروگرام کے اختتام پر اس دعوت دینے والے گھر کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اپنی استطاعت کے مطابق ان خانہ بدوشوں کو چند لمحوں کی خوشیاں فراہم کرنے پر پیسے، پرانے کپڑے اور کھانا وغیرہ دے کر رخصت کرتے۔
بعض محلے کی بوڑھی عورتیں تو ان خانہ بدوشوں کے ساتھ آئی ہوئی عورت کو فورا بیٹی بنا کر خاندانی اور گھریلو مسائل اور دوسروں کے گلے شکوے تک کر لیتی تھیں،
اور اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دیتیں۔ بعض لوگ اپنی آنے والی سالگرہ، تہور یا کسی اور خوشی کی تقریب پر انکو خصوصی طور پر دعوت اور تاریخ و وقت بھی بتا دیتے۔ اسی طرح مستقبل میں ایک اور پتلی تماشے کی بکنگ ہو جاتی۔
یقین کریں سماجی رویوں میں تبدیلی بھی انہی پتلی تماشوں کے زریعے آتی تھیں۔ زمانہ بدل گیا، روایت بدل گئی، پتلی تماشے کے کردار اور انہیں نچانے والی انگلیاں بھی تبدیل ہوگئی ہیں۔ پتلی تماشہ دنیا کے مختلف خطوں میں یکساں مقبول آرٹ کی ایسی شکل ہے
جسے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو ہلکے پھلکے انداز میں بیان کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ ویسے ہی پاکستان کا لوک ورثہ کی اہمیت رکھنے والا پتلی تماشہ کسی بھی کہانی اور مسائل پہ بات کرنے کا ایک زریعہ تھا،
مگر اب یہ کھیل گلی محلوں سے نکل کر شام سات کے بعد رات دیر تک ٹی وی چینلوں پر سیاسی ٹالک شوز کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔بس اب یہی سوچیں کہ پتلی تماشہ گلی محلوں میں دوبارہ کیسے آئے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ