جاگیرداری ذہن کب تبدیل ہونگے؟ظہور دھریجہ
گزشتہ شب وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کے شہر تونسہ شریف میں معروف بزرگ شاعر اقبال سوکڑی کے شعری مجموعہ سانجھی سرت سنبھال کی تقریب رونمائی تھی ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جواں سال شاعر، صحافی اور ریسرچ اسکالر محبوب تابش نے وسیب کی محرومیوں کا ذکر کیا اور کتاب میں شامل اشعار کے حوالے سے بتایا کہ وسیب کو محروم اور غلام رکھنے میں خطے کے جاگیرداروں ، تمنداروں اور وڈیروں کا ہاتھ ہے ۔
محبوب تابش نے کسی ایک کا نام نہیں لیا بلکہ اجتماعی بات کی ۔ محبوب تابش کی بات سے اصلاح و احوال کی صورت حال پیدا کرنے کی بجائے ان پر پولیس ٹوٹ پڑی اور ان کو اٹھا کر لے گئی ۔
اس سے نہ صرف یہ کہ بزرگ اور عظیم سرائیکی شاعر کی تقریب متاثر ہوئی بلکہ آزادی اظہار پر بھی سوالات اٹھنے لگے ۔ ایک سوال یہ ہے کہ محبوب تابش کو جس بات پر گرفتار کیا گیا،
وسیب کے شاعر عرصہ دراز سے کرتے آ رہے ہیں ۔ ابھی چند دن پہلے جناب عاشق بزدار کے جلسہ میں بھی وسیب کے جاگیرداروں کے بارے میں یہی کچھ کہا گیا ۔ ایک سوال یہ ہے کہ حکمرانوں جاگیرداری ذہن کب تبدیل ہونگے کہ جو کوئی خلاف بات کرے اسے پولیس کے ذریعے گرفتار کرا دو ۔
وسیب کے جاگیرداروں کے پس منظر کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نواب مشتاق خان گورمانی ، ملک خضر حیات ٹوانہ ، ممتاز خان دولتانہ ، نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان ، ملک غلام مصطفی کھر ، نواب صادق حسین قریشی ، نواب عباس خان عباسی ، مخدوم سجاد قریشی ، فاروق خان لغاری ، سید یوسف رضا گیلانی ،
شاہ محمود قریشی ، مخدوم احمد محمود، مخدوم خسرو بختیار، لطیف کھوسہ ، ذوالفقار خان کھوسہ ،دوست محمد کھوسہ ،مخدوم شہاب الدین سمیت سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو قیام پاکستان سے لیکر کسی نہ کسی حوالے سے بر سر اقتدار چلی آ رہی ہے ۔
ابھی کل کی بات ہے کہ ملک رفیق رجوانہ پنجاب کے گورنر تھے اور آج سردار عثمان خان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کا بھی تعلق میانوالی سے ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب نے وسیب کی محرومی کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کئے ۔
جب ہم لاہور جاتے ہیں تو ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے اپنے علاقے کے جاگیردار ہمیشہ بر سر اقتدار رہے ،اور آج بھی مکمل اقتدار سرائیکی وسیب کے پاس ہے۔ اگر انہوں نے اپنے علاقے کے لئے کوئی کام نہیں کیا تو آپ ان سے کیوں نہیں پوچھتے ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر لاہور کے میاں برادران بر سر اقتدار آئے اور انہوں نے اپنے لاہور کیلئے ترقیاتی کام کئے تو آپ کو حسد نہیں رشک کرنا چاہئے ۔ آپ کے لوگوں کو بھی اسی طرح اپنے علاقے کی ترقی کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ الیکشن سے پہلے ایک صوبہ محاذ بنا ، پھر وہی صوبہ محاذ صوبہ بنانے کے تحریری معاہدے پر تحریک انصاف میں ضم ہوا ، مگر سو تو کیا پانچ سو دن گزرنے کے باوجود صوبے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔
اگر وسیب کے لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہیں یا پھر محبوب تابش جیسے نوجوان جو کہ ٹرپل ایم اے اور ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی اسکالر ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں اور ان کی زبان پر محرومی کے حوالے سے تھوڑی تلخی آئی ہے تو کیا جرم ہے ؟
آج ہم سے ایک عام طالب علم تو کیا وسیب کا موروثی سیاستدان سوال کرتا ہے کہ صوبے کا کیا فائدہ ہے ، اگر یہی موروثی سیاستدان اپنی اولادوں کو وسیب کی تاریخ ، جغرافیہ ، اور تہذیبی و ثقافتی پس منظر کے ساتھ ساتھ ساتھ وسیب کی محرومیوں کے بارے میں بتایا ہوتا تو آج یہ نوبت کیوں پیش آتی ۔
وسیب کے لوگ ایک عرصہ سے صوبے کے فوائد کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ فائدہ ایک نہیں ہزار ہیں ۔وسیب کا اپنا صوبہ ، خطے کی شناخت کا ضامن ہوگا۔ صوبہ بننے کے بعد وسیب کا اپنا گورنر ، وزیراعلیٰ ، چیف سیکرٹری ، سپیکر اسمبلی اور وزیر ہونگے جو اپنے وسیب کی عوام کو جوابدہ ہونگے۔
جاگیردار ہمیشہ اقتدار کے مراکز کا طواف کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے مالدار اور جاگیردار لاہور ، اسلام آباد ، کراچی اور پشاور وغیرہ میں کوٹھیاں بنانا پسند کرتے ہیں ۔ صوبہ بننے کے ساتھ وسیب کے تعلیم یافتہ اور مالدار لوگ بھی پشاور ، لاہور کی بجائے اپنے وسیب میں رہنا پسند کریں گے اور ہمار اپنا صوبائی سیکرٹریٹ اور سول سروس ہوگا۔
وسیب کی اپنی ہائیکورٹ ہوگی اور سپریم کورٹ کا علیحدہ بنچ ہوگا۔ سی ایس ایس کا کوٹہ الگ ہوگا اور اپنا پبلک سروس کمیشن ہوگا۔وسیب کی اپنی پولیس اور وسیب رجمنٹ ہوگی ۔ کیڈٹ کالجوں کا اجراء ہوگا جس سے وسیب کے لوگ فوج میں کمیشن حاصل کر کے جرنیل کے عہدوں پر پہنچ سکیں گے ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ صوبے کے سب سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں نوکریاں صرف وسیب کے تمام لوگوں بشمول سرائیکی پنجابی اردو کو ملیں گی ۔ ملازمتوں میںوسیب بد ترین استحصال ہو رہا ہے۔ صوبہ بنے گا تو صوبائی محکمے وسیب کے لوگوں کیلئے ہونگے۔
فارن سروسز کی ملازمتوں میں حصہ ملے گا اور وسیب کا اپنا علیحدہ صوبائی بجٹ ہوگا جو صرف وسیب پر خرچ ہوگا۔ پانی کے وسائل میں بھی برابر حصہ ملے گا۔ صوبے کے ساتھ وسیب میں زرعی آمدن ، دولت اور وسائل وسیب کی ترقی کیلئے خرچ ہونگے
اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی ۔ صوبے کا علیحدہ تعلیمی بجٹ ہوگا جس کی وجہ سے بے شمار تعلیمی ادارے قائم ہونگے ، نئی یونیورسٹیاں بنیں گی اور شرح تعلیم بڑھے گی ، زیادہ تعلیم زیادہ خوشحالی کی ضمانت ہوگی۔ صوبہ بنے گا تو سرائیکی وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون اور انڈسٹری قائم ہوگی ۔
بے روزگاری ختم ہوگی۔ یہاں رہنے والے سرائیکی ، پنجابی ، پٹھان، مہاجر بھائی بھی برابر فائدہ اٹھائیں گے اور اقتدار کے مراکز کی مسافت سے جان چھوٹ جائے گی ۔این ایف سی ایوارڈ میں وسیب کا علیحدہ حصہ ہوگا جو وسیب پر خرچ ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وسیب میں سے سینیٹر نہیں بنائے جاتے ،
صوبہ بنے گا تو سینٹ میں سرائیکی صوبے کا علیحدہ کوٹہ ہوگا یہاں کے لوگ سینیٹر بنیںگے اور پنجاب کو بھی اس سے فائدہ ہے۔ اس وقت ساٹھ فیصد آبادی کا صوبہ سینیٹ میں 25 فیصد ہے اور چالیس فیصد آبادی کے تین صوبے سینیٹ میں 75 فیصد نمائندگی حاصل کئے ہوئے ہیں
اور وسیب کا صوبہ بننے سے وفاق متوازن ہوگا اور چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہونے کے ساتھ بڑے صوبے کے خلاف چھوٹے صوبوں کی تلخی اور غصہ جاتا رہے گا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وسیب کاصوبہ پاکستان کی بھی ضرورت ہے اور اس کے تمام پاکستانیوں کو فائدہ ہے۔
محبوب تابش جیسے نوجوانوں کے احساسات و جذبات کو سمجھنا چاہئے قبل اس کے کہ احساسات و جذبات کا یہ لاواپھٹ جائے ، حکمرانوں کو محرومی کا مداوا کرنا چاہئے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ