ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے ہسپتالوں کو 10ماہ بعد کتے اور سانپ کے کاٹے کی ویکسین کی ترسیل شروع کر دیی ہے ٗاس ویکسین کی ہسپتالوں میں عدم دستیابی کی وجہ سے مریضو ں کو مشکلات اور بازاروں سے مہنگے داموں انجکشن خریدنے پڑ رہے تھے ۔ صوبائی حکومت کے نوٹس کے بعد ڈی ایچ او پشاور، گریڈ ڈی کے متنی ہسپتال، سٹی ہسپتال کوہاٹ روڈ، پولیس ہسپتال، مولوی جی ہسپتال میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی خریداری شروع کردی گئی ہے۔لگتا ہے پشاور میں کتے اور سانپ زیادہ ہو گیے ہیں اس لیے پشاور کے شھریوں کو ویکسین کی فراہمی فوری طور پر شروع ہو گئی ہے ۔
البتہ صوبے کے باقی اضلاع کے ڈی ایچ اوز کو ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ فوری طور پر ویکسین کی خریداری کریں اور اپنے اپنے اضلاع میں ویکسین شہریوں کو فراہم کریں۔ جبکہ شہر میں کتے مار مہم بھی محکمہ صحت نے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اصل میں تو صوبے کے اضلاع کے ڈی ایچ اوز کو صرف حکم دیا گیا ہے کہ وہ ویکسین خریدیں کوئی رقم جاری نہیں کی گئی۔
اگر ڈی ایچ اوز کے پاس بجٹ ہوتا تو کیا وہ صوبائی حکومت کے حکم کے انتظار میں رہتے کہ جب وہاں سے ہدایات آئینگی تو ویکسین خریدیں گے ورنہ نہیں۔ ایسی ویکسین تو ہر وقت ہسپتالوں میں موجود ہوتی ہے کیونکہ جب بھی کوئی مریض ہسپتال پہنچتا ہے تو فورا“ اس کی جان بچانے کے لیے یہ ٹیکہ لگا دیا جاتا ہے۔
PTI کی خیبر پختونخوا کے پچھلے پانچ سال کے دور میں جتنی اچھی کارکردگی تھی اس نیے دور میں اتنی بُری اور مضحکہ خیز کارکردگی ہے یا تو اس خبر میں یہ بتایا جاتا کہ صوبائی حکومت نے پچھلے دس ماہ سے ہسپتالوں کا بجٹ روک رکھا تھا جو اب ریلیز کر دیا ہے اس لیے اب مریضوں کو ویکسین اور دوایاں ملیں گی مگر اس خبر سے پتہ چلتا ہے کہ ڈی ایچ اوز کو صرف حکم دیا گیا ہے جس کے جواب میں یہ دفاتر لکھیں گے ہمیں بجٹ نہیں ملا اس لیے ویکسین کی خریداری ممکن نہیں جب رقم آئے گی تو رادھا جی ناچے گی۔
میں سرائیکی ہونے کے باوجود صوبہ پختونخوا کا زبردست حامی ہوں کیونکہ اب ہماری تہذیب وکلچر تقریبا“ آپس میں مل کر ایک ہو چکا ہے مگر جب جنوبی پنجاب والوں کو یہ نعرہ لگاتے دیکھتا ہوں کہ۔۔۔اساں قیدی تخت لھور دے ۔۔۔تو سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ پشاور ہمارے صوبے کے دوردراز اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان۔چترال ۔ہزارہ۔ کوہستان سے ایسا سلوک نہ کرے کہ یہاں کے لوگ بھی ایسے نعرے لگانے پر مجبور ہو جائیں۔
ہزارہ صوبہ کی تحریک دب گئی مگر اس کی چنگاریاں شعلہ جوالہ بن سکتی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیکل کالج ہونے کے باوجود نہ کوئی بہترین چلڈرن ہسپتال ہے نہ ہارٹ اور نیورو سرجری کا شعبہ۔روزانہ حادثات میں ہیڈ انجری کے مریض ملتان جا رہے ہوتے ہیں اور اکثر راستے میں مر جاتے ہیں۔ آجکل چھوٹے بچوں کا علاج کرانے ہم شہباز شریف کے بناۓ گیے ہسپتال بھکر جا رہے ہیں۔
اگرچہ ہم شہباز شریف کے ووٹر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے طرفدار ہیں. ڈیرہ کا چلڈرن ہسپتال رش کی وجہ سے ریلوے سٹیشن لگتا ہے اگر کسی مخیر آدمی کو ہی کہ دیا جاتا تو وہ یہاں گلاب دیوی جیسا ہسپتال بنا دیتا مگر جب پارٹی شل ہو کے بیٹھ جاۓ تو ہم کیا کریں؟
مفتی محمود ہسپتال میں چلڈرن کا شعبہ کھولا تو گیا مگر کوئی ماڈل چلڈرن ہسپتال موجود نہیں۔ ڈیرہ میں مفتی محمود ہسپتال۔دینار ہسپتال۔مفتی محمود سکول۔مفتی محمود لائیبریری۔ سوئی گیس کی فراہمی۔ ڈیرہ ہکلہ موٹر وے۔جیل کی زمین پر گرلز کالج۔ سب بڑے بڑے پراجیکٹ مولانا فضل الرحمان کے مرہون منت ہیں۔ ابھی تک پی ٹی آئی کا کوئی بڑا لینڈمارک منصوبہ سامنے نہیں آیا۔
ہمارے صوبے کے چیف منسٹر ڈیرہ کا دورہ تک نہیں کرتے یہاں کے لوگ ان کا نام بھی نہیں جانتے ورنہ ضیاء دور کا گورنر فضل حق اب بھی لوگوں کو یاد ہے کہ وہ صوبے میں گھومتا اور ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرتا تھا۔ میونسپل کمیٹی اور واسا کی صفائی کا حال سب کے سامنے ہیں۔ آپ ڈیرہ کی مرکزی حقنواز پارک کو جا کر دیکھ لیں گند ہی گند ہو گا۔ کرپشن کا ریٹ بڑھ گیا ۔کرپشن کے باولے کتے کاٹنے کی ویکسین بھی نہ بن سکی۔
ڈیرہ کے ممتاز شاعر غلام محمد قاصر نے اپنی مشھور غزل میں ایک شعر کہا تھا؎ سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے ۔۔ آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے۔ کرپشن ۔رشوت کے سانپ اب جن بھوت کا روپ دھار چکے ہیں۔ آٹا ۔سبزیاں۔کپڑے ۔جوتے۔سب مہنگے ۔بجلی گیس پٹرول کا نرخ ہر مہینے بڑھ رہا ہے ۔شھر میں ترقیاتی کام ٹھپ پڑے ہیں۔ ہماری IMF کی متعین کردہ فینانس ٹیم اور وزیراعظم کے منہ پر ٹیکس ٹیکس کی ایک ہی گردان ہے۔ ڈیرہ میں واپڈا کے جرمانوں نے عوام کا کچومر نکال دیا۔ واپڈا کو درست کرنے کے صرف بیان آ رہے ہیں عملا” ہم بنوں سرکل کے ماتحت ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
تو کیا نعروں اور اخباری بیانوں سے حکومتیں چلتی ہیں ؟ کچھ تو ہوش میں آئیں غریبوں کا حال دیکھیں کدھر ہیں کٹے ۔وچھے۔مرغی۔انڈے۔پچاس لاکھ گھر۔ایک کروڑ نوکریاں۔لنگر خانے.200 ارب ڈالر کی لوٹ مار کی واپسی۔۔کیا سب منصوبے کیپیٹل کے لیے ہیں یا پشاور سے آگے درہ آدم خیل کا پہاڑ روک لیتا ہے؟ کیا پانچ سال صرف چوروں کو گالیاں دینے اور پھر ان کو مراعات اور ریلیف دینے گزارنے ہیں ؟ عوام کو کاسہ گدائی دینگے کہ خود بھیک مانگ کے کماو فائیلر بنو اور IMF کے خزانے میں بھی کاسہ گدائی کا حصہ جمع کراو۔
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے حاجی گلبر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان منتخب
سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی نیب آفس طلبی