محترم قارئین کرام، نہ جانے وطن عزیز میں کونسا نظام چل رہا ہے. دیس میں صاحب اختیار اور بااختیار کون کون ہیں. کسی بھی شعبے کو لیجیئے مسائل کی دلدل میں پھنسا اور دھنسا ہوا نظر آتا ہے. خرابیوں کی ذمہ داری کوئی بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ کمال ڈھٹائی سے تمام چھوٹے بڑے ذمہ داران اس کا ملبہ دوسرے پر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں.انفرادی اور اجتماعی طور پر سفر کرتے کرتے آج ہم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں.سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد وقت کا وزیر اعظم عمران خان اعلی عدلیہ کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے ایک جیسا انصاف ہونا چاہئیے. دوسری طرف سے سپریم کورٹ کے چیف صاحب کا ردعمل کچھ اس طرح آتا ہے کہ باہر جانے والوں کو ہم نے نہیں خود وزیر اعظم نے اجازت دی ہے. کورٹ نے صرف جزیات طے کی ہیں. یہ ایک اہم، حساس اور علیحدہ ایشو اور قومی درد کی داستان ہے.قانون کی دھجیاں اڑانے والے کسی بھی ادارے اور شخص نے، قانون شکنی کرنے والے کو تحفظ دینے والوں میں سے آج تک کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ فلاں فلاں مواقع پر فلاں فلاں سے غلطی ہوئی. قانون کے مطابق اسے کوئی سزا دی گئی ہو.ملک میں آج تک کتنے مارشل لا آئے. قانون میں ان کی کتنی کنجائش ہے. خیر چھوڑیں میرے جیسا آدمی تو ایسی بحث ہرگز افورڈ ہی نہیں کر سکتا. اور ویسے بھی میرا یہ آج کا موضوع بھی نہیں ہے.
محترم قارئین کرام، میاں محمد جمیل ہو یا ڈاکٹر محمد ممتاز مونس اور جام احمد زبیر ، جاوید اقبال ہوں یا قمر اقبال جتوئی ہوں یا احساس اور درد دل رکھنے والا کوئی اور صحافی شخص ہو. وہ اپنے علاقے، گرد ونواح، شہر ضلع اور اپنے وسیب کے مسائل اور دیگر معاملات کو رپورٹ کرکے ان کی نشاندہی کرکے انہیں اجاگر کر سکتا. انہیں حل کرنا متعلقہ ادارے، انتظامیہ، حکام بالا اور حکمرانوں کا کام ہوتا ہے. نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بے حسی، لاپرواہی، غیر ذمہ داری کی انتہا ہے.ایسے لگتا ہے کہ شاید رب نے ناراض ہو کر بہت سارے لوگوں سے احساس کی دولت چھین لی ہے.ہم میں سے باہر سے انسان کی شکل و صورت میں نظر آنے والے بہت سارے لوگ اندر سےپلید اور درندے بن چکے ہیں. اپنی ذمہ داریوں کا احساس تک ختم ہو گیا ہے. شاید اسی لیے انہیں اپنی ذات اور اپنے مفاد کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا. وہ ایک کان ست سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں. ہمارے مسائل نہ صرف جوں کے توں رہتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ایک خوف ناک گھمبیر صورت اختیار کر لیتے ہیں.پھر بھی یہاں حوصلے اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھ مناسب حل کہ بجائے ایک دوسرے پر الزام در الزام کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے.ایک دوسرے کے خلاف فتوے دیئے اور ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے. دراصل یہی کردار، روش، رویہ، مرض گمراہی کا مرض ہے. اللہ تعالی ہم سب پر رحم فرمائے اور ہدایت کاملہ نصیب فرمائے آمین.
میرے ضلع رحیم یار خان میں ہیپا ٹائیٹس کا مرض ایک منہ زور اور بے لغام گھوڑے کی طرح دوڑ رہا ہے. وطن عزیز پاکستان میں یرقان کے مرض میں پہلا نمبر میرے خطہ سرائیکیستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان کا ہے جبکہ دوسرا نمبر بھی اسی خطہ سرائیکستان کے ضلع رحیم یار خان کا ہے. اس کی وجوہات اور اسباب کیا ہے. اس مرض کے پھیلاؤ میں کس کس کی لاپرواہی شامل ہے.کنٹرول نہ کیے جا سکنے کے ذمہ داران کون کون ہیں. سر دست ہم ہیپاٹائٹس کی بات کر رہے ہیں. یہاں پولیو فری کے دعوے جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں. کسیز کو ہسپتالوں میں رپورٹ ہونے سے روکا اور چھپایا جاتا رہا ہے. گردوں کا مرض بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے. تین صوبوں کے سنگھم پر واقع ضلع رحیم یار خان میں شیخ زاید ہسپتال جیسے کم ازکم تین ہسپتالوں کی ضرورت ہے. میں مزید بات کرنے سے قبل میاں محمد جمیل اظہر کی ہیپاٹائیٹس کے حوالے سےیہ رپورٹ آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوتا.
ضلع رحیم یارخان کی چاروں تحصیلوں‘ رحیم یارخان‘ صادق آباد‘ خان پور اور لیاقت پور میں 25% آبادی ماحولیاتی آلودگی‘ ناقص خوراک اور مضر صحت پانی استعمال کرنے کے باعث ہیپاٹائٹس کے موذی مرض میں مبتلا ہے۔ سالانہ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ غیر مستند معالجین‘ اتائی اور حجام یہ مرض پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ احتیاطی تدابیر سے آگاہی نہ ہونا اور واٹر سپلائی کا بوسیدہ نظام اس مہلک بیماری کی بڑی وجہ ہیں۔ جعلی اور غیر معیاری ادویات بھی یہ مرض پھیلانے کا سبب ہیں۔ محکمہ صحت صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے۔ این جی اوز اور سول سوسائٹی کے ہر فرد کو آگاہی مہم میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ضلع رحیم یارخان کی آبادی 50لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں سے ہر چوتھا آدمی اس جان لیوا مرض سے دوچار ہے۔ شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ضلع بھر میں زیر زمین پانی کڑوا ‘ مضر صحت اور آرسینک زدہ ہے۔ شیخ زید ہسپتال سمیت تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں میں اس مرض کے علاج معالجہ کی خاطر مطلوبہ سہولیات میسر نہ ہیں۔ ادویات تو بالکل دستیاب نہ ہیں اور اس کے مہنگے علاج کی وجہ سے غریب لوگ ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسی خوفناک بیماریوں کی زد میں آجاتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ محکمہ صحت سرکاری طور پر اس جان لیوا مرض سے متاثرہ مریضوں کے حقیقی اعداد وشمار آج تک سامنے نہیں لایا جبکہ محکمہ بیت المال کی طرف سے اس مرض کے علاج کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تھا مگر اب وہ بھی بند کردیا گیا ہے۔ حکومتیں بدلنے سے پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں، ہیپاٹائٹس کی تشخیص کے لئے پرائیویٹ بڑے طبی اداروں نے اپنی اپنی کلینیکل لیبارٹریاں قائم کر رکھی ہیں جہاں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ٹیسٹوں کی بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔ علاج معالجہ کے لئے ادویات ‘ ٹیسٹوں ‘ خوراک اور ڈاکٹروں کی فیس کی مد میں لاکھوں روپے خرچ آتے ہیں جو ایک غریب مریض کی پہنچ سے بہت دور ہے چنانچہ وہ سستے علاج کے لئے اتائیوں کے ہاتھوں کی زندگی کی بازی تک ہار جاتے ہیں۔ محکمہ صحت کے ارباب اختیار کی تمام تر کارروائیاں صرف دفتری فائلوں تک محدود ہیں۔ محکمہ صحت کے حکام کی طرف سے ہمیشہ ”سب اچھا“ کی رپورٹ ارسال کرکے حکومت کو بھی مطمئن کردیا جاتا ہے۔ غیر محفوظ انتقال خون بھی اس خطرناک بیماری کے پھیلانے کی ایک اہم وجہ ہے ۔ اکثر لیبارٹریوں میں ان ٹرینڈ سٹاف ہوتا ہے جب مرض کی تشخیص ہی غلط اور غیر تسلی بخش ہوگی تو علاج کا نتیجہ بھی سوائے موت کے کیا ہوسکتا ہے؟ بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مسلسل غفلت کے باعث ہیپاٹائٹس بی اور سی کا اژدھا ضلع رحیم یارخان مےں دن بدن سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ حکومت کو اس موذی مرض کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ اس کی روک تھام کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیئں۔ عوامی سماجی شخصیات رحیم یارخان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدرچودھری محمد شفیق ‘ ایف پی سی سی آئی کے ریجنل چیئرمین عبدالرﺅف مختار‘ انجمن آڑھتیان غلہ منڈی کے صدر چودھری انوار احمد نجمی‘ چودھری جاوید ارشاد‘ چودھری وسیم شہزاد اور چودھری نجم مجید نے ہمارے سوشل ورکر صحافی میاں محمد جمیل اظہر سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہیپاٹائٹس کے تیزی سے پھیلتے مرض کو روکنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے یہ ڈینگی سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ اتائی ڈاکٹروں حکیموں اور ڈسپنسروں کی وجہ سے یہ مرض وباءکی صورت اختیار کرچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق سوا کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کالے یرقان میں مبتلا ہے جبکہ اس سے دوگنی تعداد بغیر ٹیسٹ کروائے لاعلمی میں پھر رہی ہے جس کی وجہ سے شہری اچانک جگر کی خرابی اور کینسر میں تبدیل ہونے کی وجہ سے آناً فاناً موت کی وادیوں میں چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیرمستند ڈاکٹر، حکیم، ڈسپنسر اوردندان ساز اس مرض کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہےں جبکہ حجام اور بیوٹی پارلر والے اپنے آلودہ آلات کو بار بار استعمال کرکے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا دیگر اضلاع کی نسبت رحیم یار خان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ محسوس کیا جارہا ہے اور جس کی بنیادی وجہ آلودہ اور آرسینک ملا پانی ہے جو جگر گردوں اور نظام انہضام کو تباہ کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہیپاٹائٹس سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی جائے اور اس کو پھیلانے کا باعث بننے والے اسباب کو روکا جائے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہیلتھ کئیر کمیشن کو موثر بناکر غیر مستند ڈاکٹروں ، حکیموں، ہومیوپیتھک ڈاکٹرز، ڈینٹسٹ اور ڈسپنسرز کے خلاف کریک ڈاﺅن کیا جائے۔ اس کی ویکسین کو سستا اور عام کیا جائے۔ بیماری سے بچاﺅ کی ادویات کو بھی سستا اور عام کیا جائے۔
محترم قارئین،، جز وقتی اور بے اثر چھاپوں کی حیثیت محض خانہ پری اور نمائشی کاروائی سے بڑھ کر نہیں ہوتی.یہی وجہ ہے کہ مختلف دھندوں میں ملوث گروہ چھاپے کے اگلے دن یا چند دن بعد سینہ چوڑا کرکے پہلے سے زیادہ دھڑلے کے ساتھ دو نمبری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں.اکثر نام نہاد ٹیسٹنگ لیبارٹریز بھی محض پیسے کمانے والے ایک مافیاز کا روپ دھار چکی ہیں.جیسے ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے. ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان سمیت جتنے بھی اضلاع ہیں جہاں پر پیپاٹائٹس کی شرح بہت زیادہ ہے وہاں اس کے علاج کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جانے چاہیئیں. سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کا کوٹہ بڑھانا چاہیئے.میرا خیال ہے کہ بڑے ڈاکٹروں کی فیسز کو بھی کنٹرول کرنے ضرورت ہے. پرائیویٹ ہسپتالوں اور ان کے ڈاکٹروں کے لیے بھی قانون ہونا اور اسے حرکت میں نظر آنا چاہئیے. دواز ساز کمپنیوں کی سیل بڑھانے کے لیے ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہئیے. یہ عنصر بھی بیماریوں کے پھیلاؤ اور ان میں پیچیدگیوں پیدا کرنے کا باعث ہے.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ