میں نے پوری زندگی صحافت میں گزاری اور صحافت ہی میرا اوڑھنا بچھونا رہا مگر مجھے یہ خیال کبھی نہیں آیا تھا کہ صحافت ایک دن عوام اور معاشرے کی خدمت کی بجاۓ تجارتی دکان بن جاۓ گی پھر آگے ترقی کر کے دنیا میں فساد ۔قتل و غارت ۔لڑائی جھگڑے اور نا اتفاقی پیدا کر کے بربادی کا سبب بننا شروع ہو گی ۔
جب پاکستان میں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو مادر پدر آذادی ملی تو یہ ایک جن بھوت بن کے ناچنا شروع ہوا۔ابھی بھوتوں کا ناچ جاری تھا کہ سوشل میڈیا آ پہنچا۔سوشل میڈیا تو آذادی اظہار کی ہیرا منڈی ثابت ہوا اور پھر ہم اس میں ایسے غرق ہوے جیسے برمودا ٹرائنگل میں جہاز غرق ہوتے ہیں۔
جو صحافی برمودا چینل سے بچے ہوۓ ہیں وہ بارھویں تیرھویں صدی کے مناظراعظم سپیشلسٹ بن گیے۔ ان مناظرہ بازوں کی محفل اس بازار کی طرح رات کو سجتی ہے پھر دنیا جہاں کا جھوٹ بڑے وثوق سے بولا جاتا ہے اور عوام بھی اللہ میاں کی گاۓ کی طرح اس جھوٹ۔فریب ۔دھوکہ بازی۔شر پسندی کو بڑے خلوص کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں۔
اس کے بعد ان جھوٹ کی پوٹلیوں کو صبح اپنی دکانوں ۔دفتروں۔فیکٹریوں میں کھول کر خوب لڑتے شام کر دیتے ہیں جب تک ایک اور کفر کے بابوں کی دکانیں کھولنے کا وقت ہو جاتا ہے اور وہ ٹی وی چینلز کے سامنے ان مناظر ہ بازوں کے آگے آنکھیں پھاڑے بیٹھ جاتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں اندھی۔کان بہرے اور دل مردہ ہیں۔ یہ جھوٹ اور فریب کے پروگراموں پر چیلوں کی طرح جھپٹتے ہیں جو مردہ جانور کا بدبودار گوشت نوچ نوچ کر کھاتی ہیں۔
ہمارے سدھرنے یا اصلاح کا دور دور تک امکان ختم ہو رہا ہے کیونکہ اللہ کے فرمان ۔۔غور کرو یا خود سوچو سے ہم منہ پھیر کے بیٹھے بس جدھر ہوا لے جاۓ ہماری کشتی ادھر تیرنے لگتی ہے ۔ہم ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں بلکہ اب تو اس کے اہل ہی نہیں۔تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھو ہم نو سو سال پیچھے کھڑے ہیں ۔دوسری قومیں ستاروں پر کمند ڈال رہی ہیں پاکستانی قوم 72 سال میں ایسا منصفانہ سسٹم نہیں بنا سکی جس میں سکون سے سانس لے سکے۔
ہم سقوط بغداد کے دور کے باسی ہیں۔ غالباً یہ سن 1258 کا ہمارے دور کی طرح کا ایک ایسا ہی چمکدار دن تھا جب دارالخلافہ بغداد کی چار گلیوں میں بیک وقت چار اہم موضوعات پر مناظرے ہورہے تھے۔
پہلا مناظرہ اس بات پر تھا کہ سوئی کی نوک پر بیک وقت کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔
دوسرا مناظرہ اس اہم موضوع پر ہورہا تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام؟ تیسرے مناظرے میں یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہیئے؟ ایک طبقے کا خیال تھا کہ یہ بالشت سے چھوٹی نہیں ہونی چاہیئے جبکہ دوسرے گروہ کے خیال میں بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز تھی۔
چوتھے مناظرے میں اس سوال کا جواب تلاش کیا جارہا تھا کہ عربی میں ” والضالین ” کہتے وقت ض کیلئے آواز دال کی نکالنی ہے یا زال کی؟ اور یہ کہ ض کی ادائیگی کیلئے زبان کو کتنے زاویئے پر موڑنا واجب ہے؟
ابھی یہ مناظرے زور و شور سے جاری تھے اچانک ہلاکو خان کا لشکر بغداد کی گلیوں میں داخل ہوا اور اس نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔مسواک کی حرمت بچانے کی کوششوں میں مصروف لوگ خود بوٹی بوٹی ہوگئے۔ سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار بن گئے جنہیں شمار کرنا بھی ممکن نہ رہا۔ کوے کے گوشت کی بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کووں نے نوچ ڈالے، ض کی درست آواز نکالنے کی کوشش کرنے والوں کی چیخوں سے زمین گونچ اٹھی۔
خیر تاریخ کو چھوڑیں آئیں ٹی وی دیکھیں جہاں مناظرے شروع ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ جھوٹ کی گٹھڑی باندھ کر سرہانے کے نیچے رکھ لیں کیونکہ کل ہم نے بھی اپنی مخالف پارٹی سے مناظرہ کرنا ہے کچھ اسلحہ تو ہمارے پاس بھی ہو جو فریق مخالف کا سر پھاڑ کے رکھ دے اور یوں گلشن کا کاروبار جاری رہے۔ ملک۔ قوم۔ امت سب زوال کا شکار رہیں اس سے ہم کو کیا؟ !!!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر