جب پانی،وسائل مویشی اور ویران علاقوں پہ قبائیل جاگیردار وڈیرے لڑ مر اور قبضے کر چکنے بعد کہیں جھوک قلعہ ،حویلی بنا بیٹھے تب ایک کمال کا طبقہ پیدا ھوا وہ اپر سندھ اور پار کہے جانیوالے خطے کے لوگ تھے۔
یہ ملتان سے مغرب کی طرف اور دامانی خطے کے واسی اور مغربی سندھی تھے۔
یہ نہروں واہ کی بھل صفائی کرتے موسمی مزدور کسی اجرت کی تحریر میں نہ آئے۔یہ بلا معاوضہ اور رواجی پیشہ ور طبقہ تھا۔اور گروہی مزدوری پہ چنا جاتا۔۔روہتک حصار کے اووڈ بھی اسی قسم کے تھے۔
سبھی آقاؤں نے انہیں سماجی اور جسمانی غلام بنایا۔
چھیڑ بلا اجرتی پہ پابندی 1850 کے بعد لگی۔مگر یہ رواج کی شکل ڈھال دیے گئے جو پنچایت اور لمبرداریعنی نمبردار اور زمینداروں کے رحم و کرم پہ تھے۔
نہ کوئی کیش نہ جائیداد بس رواجی مزدوری۔جب ڈیم بیراج اور پانی کے ذخیرے بنے یہ بھی کچھ زمینداروں اور پنچایتوں کی طرح ختم ہوتے گئے۔
چھیڑ جنوبی پنچاب اور مغربی سندھ میں پنپتی رہی کوئی ریاست انہیں بنیادی حقوق نہ دے سکی نہ کوئی وڈیرہ۔
نہروں پہ جب ماہوار تنخواہ اور باقاعدہ اہلکار معمار مستری میٹ بیلدار آگئے یہ کمیونٹی اب پانی بہا کے راستے چھوڑ کے تارکول کی کالی سڑکیں نہروں کے پشتے ریل راستے بنانے لگی۔اور فصلی سستی مزدوری۔جس نے عرب کی عمارتیں۔برصغیر کی سبھی خانقاہیں اور نوابوں کے محل بنائے۔
مجھ جیسی کئی نسلیں اپنی اجداد کی چھیڑ پہ فخر کرتی ھیں۔۔یہ چھیڑ آج بھی کئی شکلوں میں زندہ ھے۔کھیتوں میں۔دھان گنے میں کٹائی اور پشتے بنانے میں یہ ان لمیٹڈ گروہ انسانی ترقی کا اہم اور بے زبان طبقہ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر