چند سالوں سے ماحول اس قدر آلودہ ہو رہا ہے کہ انسانی زندگیوں کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ انسان دوست حکومتیں معاشرے کو ماحولیاتی آلودگیوں سے پاک رکھنے کے لیے اقدامات بھی کررہی ہیں۔ پاکستان کی منتخب حکومت نے بھی اپنے شہریوں کی زندگیاں آلودگی سے محفوظ بنانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہیں ھتی کہ ماحولیات کی ایک باقاعدہ وزارت قائم کی گئی ہے۔ لیکن ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات غیر موثر ثابت ہو رہے ہیں۔
کچھ دنوں سے لاہور سمیت چند دیگر شہروں کو سموگ کی لپیٹ میں ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی بساط اور اوقات کے مطابق شہریوں کو سموگ سے بچانے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں حتی کہ یہاں تک ہماری ”عوام دوست“ پنجاب حکومت نے لاہور،فیصل آباد اور گوجوانوالہ کے تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا بھی اعلان کیا لیکن سموگ ہے کہ ان شہروں کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ جس سے ہمارے مستقبل کے معماروں کی زندگیاں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات اپنی جگہ لیکن ہمارے وزیر باتدبیر فواد حسین چودھری دور کی کوڑی لائے اور کہہ دیا کہ”لاہور میں سموگ بھارت سے آ رہی ہے“ مطلب یہ کہ انہوں نے سموگ کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہرا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کو استدلال یہ ہے کہ حکومتی اقدمات اس لیے موثر نہیں ہو رہے کہ حکومت سیاسی معامالت میں الجھی ہوئی ہے اور سموگ سے نبٹنے کے لیے اس یکسوئی کے ساتھ کام نہیں ہوریا جس یکسوئی کی ضرورت ہے۔
لاہوریوں یعنی زندہ دلان لاہور کی زندگیوں کو سموگ کے باعث لاحق خطرات نے عالمی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی علمبردار غیر سرکاری تنظیم ”ایمنسٹی انٹرنیشنل“ کو اپنی تشویش ریکارڈ کروانا پڑی ”ایمنسٹی انٹرنیشنل“ کی اس تشویش کے مطابقہر لاہوری کی صحت کو خطرہ ہے ”ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تشویش میں مذید کہا گیا ہے کہ ”لاہور میں شہری سموگ کی انتہائی بری صورتحال سے دوچار ہیں“ پنجاب کے دارالحکومت لاہور اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی آبادی اس وقت دو کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا جانب سے ’حکومت کی جانب سے لاہور یوں کو سموگ سے نمٹنے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان ناکافی اقدامات کی وجہ سے اہم ہومن رائٹس کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مزید کہنا ہے کہ سموگ کے حصار میں زندہ دلان لاہور کامعاملہ انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے دنیا بھر میں اپنے اراکین سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ اس بحران کی نوعیت کو سنگین تسلیم کریں اور لوہوریوں کی صحت اور زندگیاں بچانے کے لیے فوری اقدام کریں۔
بی بی سی کے مطابق ”لاہور میں امریکی سفارتخانے میں نصب فضا کے معیار کی نگرانی کرنے والے آلات سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس ماہ میں متعدد بار لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 580 تک پہنچ گیا تھا۔ اے کیو آئی کے مطابق 130 کی شرح حساس طبعیت کے مالک افراد کے لیے تاحال غیرصحتمندانہ ہے جبکہ 580 کی شرح تو ہر فرد کے لیے انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہے۔“
بی بی سی نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ’فوری ایکشن‘ کو ایک ایسا اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل تنظیم نے اس قسم کے ایکشن کوماضی میں کئی مرتبہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کرنے والوں اور انسانی ضمیر کو ہلا دینے والے معاملات کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ماضی کے موضوعات میں پاکستانی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی توہینِ مذہب کے سلسلے میں قید، گوتانامو بے کے قیدیوں کی رہائی، اور حقوقِ نسواں کے حوالے سے کام کرنے والا روسی پنک راک بینڈ پسی رائٹ کے خلاف کارروائی شامل ہیں۔“
پاکستان کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فی الفور سموگ کے خاتمے اور لاہوریوں کی جانوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے ایسا نہ ہو کہ انسانی حقوق کی یہ عالمی تنظیم پاکستان کے خلاف عالمی آواز میں تبدیل ہوجائے اور عالمی رائے عامہ میں ایک مہم کا آغاز ہوجائے۔ حکومت پاکستان بھارتی حکومت اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ علاقوں کی صوبائی حکومت کو قائل کرے کہ وہ دھان کے مڈھ جلاتے وقت احتیاطی تدابیر کو ملحوظ کاطر رکھیں کیونکہ مڈھوں کے جلانے سے جو االودگی فضا میں جاتی ہے وہ پہاڑوں سے چلنے والی ہواؤں کے ساتھ پاکستان کا رخ کرتی ہے جس سے ہمارے شہر اور شہریوں کو جان لیوا سموگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ