فیض امن میلہ میں سر فروشی کی بہت سی باتیں ہوئیں اور ان انقلابی نعروں کی گونج سوشل میڈیا پر بھی کل سے وائرل ہوئی ہوئی ہے اس تناظر میں میرا ایک چھوٹا سا یوگدان ایک مضمون کی شکل میں آپ کی نظر۔
انقلاب کی دل نشیں اور جذباتی باتوں سے ہمیں بہت شغف رہاہے۔ ہمارے استاد محترم کامریڈ لال خان سرمایہ دارانہ نظام کی پشت پر ایسی چابک زنی کرتے کہ اس کا ” رتا پاسہ رتا لال” ہو جاتا اور پھر سرخ انقلاب کا لال سویرا چہار سو حد نظر سے بھی کہیں پرے سوچ کی سرحدیں پھلانگتا ہوا شتر بے مہار ہو جاتا تھا۔
اور ہمارے اندر ایک ایسی ہیجانی کیفیت سر اٹھانے لگتی جس سے نہ صرف ہم لالو لال ہو جاتے تھے بلکہ پورا تناظر بھی سرخ سرخ ہو جاتا تھا۔ سرخ سویرے کی حواس پر جادوئی کیفیت میں ایک دن ہمیں بازار فروٹ لینے جانا پڑا تو دکاندار سے لال کیلے لینے کی ضد کرنے لگے،مگر وہ ناہنجار سرمایہ داری کا گماشتہ نکلا ہمیں سرخ کیلا دینے سے صاف انکار پر تل گیا بلکہ مُکر گیا۔
ہم نے بھی اسے استعمار کی سازش سمجھ کر دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ جب کچھ دنوں کے بعد انقلاب برپا ہوگا ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کے دم لیں گے۔ پھر اسے پتا چلے گا کہ انقلاب کے سارے کے سارے ثمرات لال ہی ہوتے ہیں۔
خیر ہم لال فروٹ کے بغیر ناکام ونامُراد گھر لوٹ آئے۔ اُس صبح کی دل میں جوت جگا کر جس صبح کی فیض صاحب کو بھی کافی دیر بعد ہی سمجھ آئی تھی۔ ادھر گھر والےبھی آس لگا کے بیٹھے تھے کہ فروٹ کھائیں گے۔ مگر ان کم بختوں کو کیا پتا کہ سماج کی ساری پرتیں جہالت کے پردوں میں لپٹ کر قیلولہ فرما رہی ہیں۔
خیر گھر کے پیٹی بورژوا petty bourgeois قسم کے افراد سے گالیاں کھانے کے بعد ہم اپنے استاد محترم کے پاس پہنچے۔ اپنا قصہ سنایا تو انہوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کامریڈ انقلاب کیلئے اولین شرط ننگے پاوں کانٹوں پہ چل کے منزل کی طرف بڑھتے جانا ہے۔ ” بس گھبرانا نہیں” جب تک سرخ سویرا گھر پر دستک نہ دے۔
استاد صاحب نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا آپ فکر نہ کریں۔ یہ کفر بہت جلد ٹوٹنے والا ہے اس کے بعد یہ سارے بت پاش پاش ہو جایئں گے۔ چہار سو انقلاب زندہ باد کے نعروں کی گونج سے آسمان لرز اُٹھے گا۔ اس جاں افروز تسلی کے بعد اس نے مجھے کہا شام کو ایک ایگری گیٹ ھے۔ اس میں ہم نے شریک ہونا ہے اس کی تیاری کر لو۔ ہم نے تیاری کیا کرنی تھی سگریٹ کے دو چار پکے پکے کش لگائے اور دو چار کڑوے گھونٹ بھر کے سو گئے۔ جب اٹھے تو شام کے سائے گہرے ہو چُکے تھے۔
ھینگ اوور hang over سے بچنے کیلئے بچا کُھچا پانی پیا اور انقلاب برپا کرنے کیلئے اپنی منزل کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ قدم چل کر دیکھا تو استاد محترم سرمایہ دارانہ نظام کی بچی کُھچی نشانی سنہ 1917 ماڈل کی بائیک کو سٹارٹ کرنے کی اپنے تئیں کوشش کررہے تھے۔ مگر اسے بھی توانائی کے بحران کا سامنا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک راہ گیر موٹر سائیکل والے سے توانائی ادھار لینی پڑی اور انقلاب برپا ہونے تک واپسی کا وعدہ بھی کیا۔ خیر بڑی مشقت کے بعد انجن میں حرکت آئی اور ہم ایگری گیٹ میں شرکت کیلئے روانہ ہو ہی گئے۔
جونہی وہاں پہنچے تو ایک پکی عمر کا کامریڈ ڈائس پر براجمان تھا اور انقلاب کے مادی حقائق پر روشنی ڈال رہا تھا۔ “کائنات کا محور و مرکز مادہ ہے اسی کے دم سے اس کائنات کا رنگ ھے مادہ نہ ہوتی تو ہمیں انقلاب کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ اسی مادہ کی بدولت ہم نے اپنی اپنی ضرورتوں کے دائرے وسیع کیے۔
آج مادہ کو مارکسی تناظر میں پھر سے پرکھنے کی ضرورت ھے۔ ھیگل کے کام کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔” اس نے اپنی بات میں وزن ڈالتے ہوئے کہا “اگر مادہ کو جدلیات کی کسوٹی پر پرکھا جائے توہمیں اس کے کردار کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ہمیں اس کی صیحح سمت کا تعین کرنا ہو گا۔”
اسی اثنا میں ایک خاتون کامریڈ female comrade نے سوال داغا کہ مادہ کی سمت کا تعین انقلاب Socialist revolution سے پہلے کرنا چاہیے، یا بعد میں؟ یہ آواز کافی دیر تک کمرے میں گونجتی رہی۔ مگر کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم سب انقلاب کی طرح بند گلی میں پھنس گئے ہوں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر