اب تو کسی محفل میں جانے کو جی ہی نہیں چاہتا، اس وقت بھی جب سب لوگ اپنے لئے کھانا نکالتے ہیں ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہر جانب سے امڈامڈ کر ہم پر پڑنے والے سوالوں کے جواب دینگے اورجواب بھی وہ جو سوال کرنے والے کی مرضی کا ہو۔
پہلے صحافی سوال پوچھتے تھے یا ان سے پوچھے جاتے تھے تواس کا مقصد جواب کا جاننا ہوا کرتا تھا لیکن جیسے جیسے ملکی ماحول، سیاست اوررویوں میں انتہا پسندی آرہی ہے لوگ اپنی مرضی کے علاوہ کسی جواب کے سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے اورمرضی کا جواب نہ ملنے پرآپ پرہی نااہلی، ناسمجھی اوربکے ہوئے ہونے کا لیبل لگا کر بحث ہی ختم کردیتے ہیں کہ آپ تو ہیں ہی تحریک انصاف ، مسلم لیگ، پیپلزپارٹی یا فلاں فلاں جماعت کے خلاف۔
وہی ہمارے ایک وزیرموصوف کی بات کہ "خدا کو جان دینی ہے” ۔میں تو جو کہونگا سچ کہونگاکہ اس انتہاپسند رویے کو تحریک انصاف کے دور میں اوربھی مہمیز لگی جس کے کارکن اپنی جماعت کے علاوہ کسی کو سچا اورٹھیک ماننے کو تیار ہی نہیں اوریہی وہ رویہ ہے جس کی بنیاد پر میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے مقصد میں کسی معمولی سی ناکامی کی صورت میں دوسری جماعتوں کے کارکنوں کے مقابلے میں ان کے دل زیادہ شدت سے ٹوٹیں گے۔
اس بات کو یہیں چھوڑ کراپنے عارضی موضوعات یعنی مولانا کو کیا ملا اورحکومت کیسے بچ گئی؟ پرآتے ہیں۔آج کل کسی مقامی میڈیا ادارے سے کال آئے یا بین الاقوامی سے، سوال پہلے سے ہی ایک تبصرہ لئے ہوئے ہوتا ہے کہ مولانا کے پلان اے کی ناکامی کے بعد پلان بی بھی ناکام ہوجائے گا۔
کیااورپلان بی بھی ناکام ہوتا ہے تو پلان سی سے کچھ مل پائے گا؟ یہ اوراسی سے ملتے جلتے فیصلے لئے ہوئے سوالات فضا پر چھائے ہوئے ہیں۔ شادیوں کا موسم ہے اور دلہا کے لئے بنائے گئے خاص شامیانوں میں بھی یہی باتیں سننے کو مل رہی ہیں ایسی کوئی جائے پناہ نہیں جہاں ان باتوں کے علاوہ کچھ بکتا ہو۔ شامت تب آتی ہے جب ہم لوگوں کے ہتھے چڑھتے ہیں اورمحفل میں موجود ہر شخص اپنی جماعتی وابستگی کی بنیاد پر سوچا ہوا سوال اوررائے ہم پرمسلط کرتا ہے، سوال کرنے والوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ہمیں ضرورپوری بات کی پوری معلومات ہونگیں اوروہ اس سلسلے میں کوئی رعایت کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔
دھرنے کی شروعات سے اب تک تمام سوالوں کو یکجا کرکے ان کے جواب بڑے سادہ ہیں کہ مولانا نے جب سندھ سے اسلام آباد کا سفر شروع کیا اورجب اسلام آباد میں قیام کیا اورقیام کے بعد کارکنوں کو وہاں سے سفر کرکے اپنے اپنے علاقوں میں لے گئے تو اس سارے عمل میں وہ کسی صورت اکیلے نہیں تھے۔
اکیلا نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دیگرسیاسی جماعتوں کی حمایت انہیں حاصل نہیں تھی اس زاویے سے اگر دیکھا جائے تو وہ کسی حدتک اکیلے چھوڑے بھی گئے لیکن میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں سے ملنے والی مدد کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں وہاں سے ان کو بڑی مدد حاصل تھی ورنہ وہ جس اندازسے انہی” مقدس مقامات“کو تاک تاک کرنشانہ بنارہے تھے وہ اکیلے ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
مولانا نے سیاست اور دیگر معاملات میں ہمیشہ زیرک سیاستدان ہونے کاثبوت دیا اور گھاٹے کے بہت کم سودے کئے ایسے میں وہ اتنے بڑے احتجاج کے لئے بغیرمناسب مدد کے حصول کے کیسے نکل سکتے تھے۔ اب تک کے اندازوں کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مولانا کے دھرنے نے ریاست کے اندر بہت کچھ ہلا کررکھ دیا ہے اوراسی لئے اب یہ بحث چل پڑی ہے کہ اگلے سال شاید جون میں نئے انتخابات بھی ہوں اورمسلم لیگ ن نے ان سے پہلے انتخابی اصلاحات کے لئے کسی عبوری حکومت کی مدد کا عندیہ بھی دے دیا ہے ، اس قسم کے عندیے ویسے ہی نہیں دیے جاتے مبالغہ بھی کرنا ہو تو اسی چیز میں کیا جاسکتا ہے جس کی کوئی بنیاد توہوورنہ جس چیز کا وجود ہی نہ ہو اس میں مبالغہ کیسے کیا جاسکتا ہے اس لئے مولاناکا اطمینان اورمسلم لیگ ن کی ان یقین دہانیوں کے علاوہ مسلم لیگ ق اورایم کیوایم کے بدلتے رویے بھی تو کچھ کہہ رہے ہیں ناں؟
صاف بات ہے نہ ہی دھرنا ناکام ہوا ہے اورنہ ہی اس کے پیچھے ریاست کے وہ عناصرجو اپنا پیغام دینا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے پیغام دے دیا اورشہروں شہروں کے یہ دھرنے ان کے نشانے پرموجود لوگوں کو احساس دلارہے ہیں کہ اب ان کے لئے عمران خان کی حکومت کی مزید پشت پناہی شاید ممکن نہ ہو۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف کی ملاقات کے بعد اسمبلیاں توڑے جانے کی چہ میگوئیوں نے بھی حکومت کی کمزوری کے تاثرات کو پختہ کرنے میں بڑا کام کیا ہے۔میاں نواز شریف اورآصف علی زرداری کو ملنے والے ریلیف کو بھی مولانا ہی کی کامیابیوں کا تسلسل کہا جارہا ہے۔
اتنے سوالوں کے دوران میں نے بھی ایک دوست سے سوال پوچھا کہ آرمی چیف کی یہ ایکسٹینشن اتنی ضروری کیوں ہے توان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے باہر اوراندر سے جاری جنگی کیفیت میں اگرایسے موقع پر کمانڈر بدل کر نیا لایا جاتا ہے تو اس درمیانی مدت میں دشمن نئے چیف کے سیٹ ہونے تک ملک کو کوئی بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں اوراس لئے حکومت اورفوج نے موجودہ آرمی چیف کو ہی توسیع دینے کا فیصلہ کیاتاکہ وہ اس جنگی کیفیت سے ملک کو نکال سکیں اورنئے جانشین کو لانے کے عمل کے دوران کے خطرات سے محفوظ رہا جاسکے۔
اب اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو وہ جانیں جنہیں معلومات اورمنصوبہ بندیوں تک پوری رسائی حاصل ہے ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ خدا کرے کہ ہمارے فیصلہ ساز آپس میں الجھنے سے بچ سکیں ورنہ دوسروں سے زیادہ نقصان ہم خود ایک دوسرے کوپہنچا سکتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ