نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جیو میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔۔۔مبشر علی زیدی

افتتاح کا دن آیا تو مہنگے سافٹ ویئر نے چلنے سے انکار کردیا۔ آئی ٹی ماہرین نے خوب زور لگایا، سافٹ ویئر چل کر نہ دیا

سہیل تقی سے میری کبھی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی۔ بس ایک بار دبئی اسٹیشن پر ان کی جھلک دیکھی تھی۔ ان کا تعلق امروہے سے تھا اور وہ جیو کے پہلے ڈائریکٹر ٹیکنیکل تھے۔ میر شکیل الرحمان نے سہیل تقی کو کینیڈا سے بلایا تھا جہاں وہ روجرز ٹی وی کے ڈائریکٹر تھے۔ انھوں نے جیو کے لیے ضروری ہارڈویئرز اور سافٹ ویئرز کا بندوبست کیا۔

اس دور میں نہ اتنا پیسہ تھا اور نہ تکنیکی مہارت۔ چنانچہ سہیل تقی صاحب نے ایک لفظ متعارف کرایا، جگاڑ۔ ہم انچولی والے اکثر یہ لفظ گفتگو میں استعمال کرتے تھے لیکن جیو میں ڈیفنس کلفٹن سے آنے والوں کو اس بارے میں علم نہیں تھا۔

جگاڑ کسے کہتے ہیں؟ جب کسی کام کے وسائل نہ ہوں لیکن آپ دو نمبر طریقے سے کام چلالیں تو اسے جگاڑ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر پیلے اسکول والا طبقہ جگاڑ کا ماہر ہوتا ہے۔

برسبیل تذکرہ ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں۔ جیو کا لوگو نیلا پیلا ہے۔ درمیان میں جیم بنا ہوا ہے۔ دن میں نیلا نیچے اور پیلا اوپر ہوجاتا تھا، گویا آسمان پر سورج کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ اور مغرب کے بعد پیلا نیچے اور نیلا اوپر چلا جاتا تھا، یعنی رات ہوگئی۔

نیوزروم میں بہت سی چیزیں انھیں دو رنگوں میں رنگی ہوئی تھیںٕ۔ آج بھی کرسیاں ان دو رنگوں کی ہوتی ہیں۔ لوگ کہتے تھے کہ جیو میں بھی دو طرح کے لوگ ہیں۔ نیلے اور پیلے۔ اردو میڈیم لوگ پیلے تھے یعنی پیلے اسکول کے پڑھے ہوئے۔

پوش علاقوں کے لوگوں کو نیلے کہا جاتا تھا۔ جیو کا آغاز ہوا تو نیلے زیادہ تھے اور انگریزی چلتی تھی۔ پیلے دب کر رہتے تھے۔ لیکن دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ کام مڈل کلاس کرتی ہے۔ بیشتر نیلے محض افسری کرسکتے ہیں۔ کام ان کے بس کا نہیں ہوتا۔ رفتہ رفتہ نیلے چھٹتے گئے اور آج جیونیوز پر پیلوں کا راج ہے۔

ہمارے محترم دوست ایگزیکٹو پروڈیوسر ذوالفقار نقوی اچھی انگریزی بولتے تھے۔ بڑے گھر میں رہتے تھے۔ بڑی گاڑی ان کا ڈرائیور چلاتا تھا۔ بڑے لوگوں سے رابطے تھے۔ لیکن رہتے فیڈرل بی ایریا میں تھے۔ اکثر ان کے منہ سے ابے یار بھی نکلتا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ نیلے ہیں یا پیلے؟ انھوں نے کہا، میں سبز ہوں۔

سہیل تقی نے جیو کو جگاڑوں سے چلایا۔ گرافکس سافٹ ویئر زیادہ مشینوں پر نہیں چل سکتا تھا۔ لیکن انھوں نے چلایا۔ نیوزروم منیجمنٹ سسٹم کے سافٹ ویئرز کے کم لائسنس تھے۔ لیکن انھوں نے کوئی جادو دکھایا۔ گورے ٹریننگ دینے آئے تو ان سے، یا کسی اور ذریعے سے پرومپٹر کا سافٹ ویئر جیو والوں کے ہاتھ لگا۔

ممکن ہے کہ لائسنس لے کر خریدا ہو۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ ایک ہی تھا۔ ایک وقت میں دو پرومپٹر نہیں چل سکتے تھے۔ بھائی لوگوں نے وہ ہارڈ ڈسک کاپی کرلی جس میں وہ سافٹ ویئر تھا۔ جب پرومپٹر کا سافٹ ویئر خراب ہوتا، تجوری میں سے ہارڈ ڈسک نکال کر کاپی کرتے اور پھر چھپا دیتے۔ کئی سال تک اس غریب نے ساتھ دیا۔

ٹرینرز نے جیو والوں کو سمجھایا کہ آپ ابتدا میں بلیٹن ریکارڈ کرکے نشر کریں تاکہ غلطیاں عوام کے سامنے نہ آئیں۔ ریکارڈ کرکے چلائیں کیسے؟ انھوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں ایسے سافٹ ویئر ملتے ہیں جن میں آپ رن ڈاؤن بنادیں تو وہ ترتیب سے وڈیو کلپ پلے کرتے جائیں گے۔ جیو کے بابا لوگ نے معصومیت سے پوچھا کہ ہمیں ایسا کوئی سافٹ ویئر دکھائیں۔

ٹرینرز میں سے ایک سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ اس نے دبئی کے دفتر میں بیٹھ کر ایک چھوٹا سا سافٹ ویئر بنایا۔ اس کا مقصد صرف سمجھانا تھا۔ جیو والوں نے پیسے خرچ کرکے مہنگا سافٹ ویئر خریدنے کے بجائے پورا چینل اس چھوٹے سے سافٹ ویئر پر کھڑا کردیا۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ نئے چینل کھلے اور جیو کے لڑکوں کو ان میں ملازمت ملی تو وہ اسی سافٹ ویئر کو کاپی کرکے ساتھ لے گئے۔

جیو کے ایک سابق پروڈیوسر نے بتایا کہ ڈان ٹی وی کے لیے بھرتی شروع ہوئی تو اسے اچھی پیشکش ہوئی۔ وہ وہاں چلا گیا۔ ڈان ٹی وی آغاز میں اردو نہیں، انگریزی چینل تھا۔

پروڈیوسر نے بتایا کہ نیوزروم میں سب نیلے لوگ بھرے ہوئے تھے۔ گاڑھی انگریزی بولتے تھے لیکن کام کدو نہیں آتا تھا۔ ڈان والوں نے مہنگے ایکیوپمنٹ اور سافٹ ویئر خرید لیے۔ تیاری مکمل کرلی۔ افتتاح کے دن کا اعلان ہوگیا۔ جنرل مشرف ملک کے صدر تھے۔ انھیں افتتاح کی دعوت دی گئی۔

افتتاح کا دن آیا تو مہنگے سافٹ ویئر نے چلنے سے انکار کردیا۔ آئی ٹی ماہرین نے خوب زور لگایا، سافٹ ویئر چل کر نہ دیا۔ ممکن ہے کہ اس کا مزاج جمہوری ہو اور وہ کسی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں افتتاح کے خلاف ہو۔

بہرحال ڈائریکٹر نیوز صاحب نے ہمارے دوست پروڈیوسر سے کہا کہ کچھ کرو۔ اس نے وہی جیو والا سافٹ ویئر کھولا اور وقت مقررہ پر نشریات چلا کر ڈان کا بھرم اور نیوزروم کی عزت رکھ لی۔

بعد میں انڈسٹری میں بہت پیسہ آیا۔ کارڈلیس کیمرے، سیٹلائٹ وین، ڈرون اور بہت کچھ۔ سہیل تقی ہوتے تو خدا جانے کیا کمال کرتے اور میڈیا صنعت میں کیسی کیسی جدت پیدا کرتے۔ لیکن افسوس، وہ اپریل 2006 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کرگئے۔

وہ امریکا آنے کے لیے رات ڈھائی بجے ایئرپورٹ جارہے تھے کہ ایک آئل ٹینکر نے ان کی کار کو ٹکر ماردی۔ حادثے میں ان کا ڈرائیور بھی جاں بحق ہوگیا تھا۔

About The Author