آج ہمارے اخبار میں خبر چھپی ہے کہ جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں ملک بھر کی شوگر مافیا کے خلاف دھواں دار تقریریں ہوئیں ۔شوگر ملز نے 15 نومبر سے کرشنگ شروع کرنی ہے مگر لگتا یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
بہر حال حکومت نے وارننگ دی ہے کہ 30 نومبر کے بعد جرمانے عائید کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاۓ گا۔ پچھلے دو سال سے ڈیرہ کے گنے کے کاشتکار شوگرملز کے رویے سے رل جاتے ہیں کبھی ان کو مقررہ ریٹ نہیں ملتا کبھی کرشنگ تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے گنا سوکھ جاتا ہے اور اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔
کچھ با اثر لوگ انڈینٹ حاصل کر کے چھوٹے کاشتکاروں سے بہت کم قیمت پر گنا خرید کر پھر سرکاری ریٹ پر بیچ دیتے ہیں اس طرح مل اور ایجنٹ کی ملی بھگت سے گلشن کا کاروبار چلتا ہے ۔
چھوٹا غریب کاشتکار بے سہارا اور لاچار ہوتا ہے نہ سفارش نہ واقفیت سُکا ان پڑھ اسکو انڈنٹ کون دے؟ اور وہ دلال کے ہاتھوں اونے پونے گنا بیچ کر قرضہ اتارنے چلا جاتا ہے۔
مجھے قومی اسمبلی میں شوگر مافیا کے خلاف بحث پر تعجب ہوا۔ تعجب اس لیے کہ ملک کی تقریبا” پچاس فیصد شوگر ملیں یا تو خود سیاستدانوں کی ملکیت ہیں یا ان کے رشتہ داروں کے نام ہیں۔اسمبلی میں شور غوغا کر کے عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے یا کوئی حقیقی تبدیلی رونما ہو چکی ہے؟
خیر یہ بات تو دو ماہ کے اندر ظاہر ہو جائے گی۔ حکومت جو بھی شوگر ملز پر ٹیکس لگاتی ہے وہ آرام سے عوام کو منتقل کر دیتے ہیں یعنی آخر میں غریب عوام ہی مہنگی چینی خرید کر ٹیکس دیتے ہیں اور شوگر ملیں دعوی کرتی ہیں وہ ٹیکس دے رہے ہیں۔
سرائیکی زبان میں ایک مقولہ ہے۔۔۔ ویاوے گاں سئیں دا ناں۔۔ مطلب گائے اگر بچھڑا جنتی بھی ہے تو نام تو گائے کے مالک کا ہوتا ہے تکلیف گائے اٹھاتی ہے۔
یہ بھی ایک لطیفہ ہے کہ جب ہم کسی بڑے لوگوں کی محفل میں ٹی وی پر غور سے بجٹ پیش ہوتا دیکھتے تو ہمارے محفل کے صنعتکار اور بزنس مین بجٹ دیکھنے کی بجائے گپیں لگا رہے ہوتے۔ البتہ ان کے نوکر بجٹ تقریر سن رہے ہوتے تھے۔
بہت دیر بعد ہم پر یہ راز کھلا کہ بجٹ کے اہم حصے تو ان لوگوں کو پہلے سے معلوم ہیں پھر وہ وقت کیوں ضائع کریں وہ تو بجٹ کے مطابق اپنے کاروبار میں ردو بدل کر چکے ہوتے ہیں
۔آج ہی کے اخبار میں ایک اور خبر پڑھ کر دل کانپ رہا ہے کہ چیرمین FBR شبر زیدی نے شوگر انڈسٹری کا پینل آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔آڈٹ کا مقصد ٹیکس کی ادائیگی کو بہتر اور یقینی بنانا ہے۔جب اس قسم کے فیصلے ہوتے ہیں عوام کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا اینڈ رزلٹ کیا نکلے گا یعنی ٹیکس کی رقم مہنگائی میں بدل کر عوام ہی کو دینی پڑے گی۔
مثال کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے سرکلر ڈیٹ بڑھ گیا ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ IPP کو اربوں روپے کی رقم دینی ہے۔انٹرنیشنل پاور پروڈیوسر IPP کا نام لے کر یہ بھی نہیں بتاتے کہ یہ دراصل تیل سے چلنے والے بجلی پیدا کرنے کے جنریٹر ہیں جن کا ایک یونٹ 42 روپے میں خریدا جاتا ہے۔
انہیIPP جنریٹرز کا جہنم برابر پیٹ بھرنے کے لیے واپڈا ہم پر جرمانے ٹھوک رہا ہے۔ امریکہ سے اگر قرضہ بھی ملے تو امداد کا نام دے کر عوام کو بےوقوف بنایا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ بنے تو وہ مدینہ میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے مگر صحابہ کرام نے ان کو کاروبار سے روک دیا اور کہا اگر آپ کاروبار کریں گے تو کوئی گاہک کسی دوسری دکان پر کیسے جائے گا؟
پھر مدینہ کے ایک مزدور کی دہاڑی کے برابر ان کی تنخواہ مقرر ہوئی۔ ہمارے اسمبلی بیٹھے لوگوں کے بڑے بڑے کاروبار اور ملیں ہیں اور سرکاری حیثیت استعمال کر کے کاروبار کو سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔جب ہم اس جمھوریت کا ماتم کرتے ہیں تو میرے دوست مجھ کو آمرانہ سوچ کا طعنہ دیتے ہیں کہ تم جمھوریت کے خلاف باتیں کرتے ہو۔
بھائی جمہوریت اور سیاستدان اس لیے ہیں کہ وہ ڈیلیور کریں۔عام غریب آدمی کا خیال رکھیں۔ آج کل آٹا۔گھی۔بجلی ۔گیس۔پیٹرول کی مہنگائی سے عوام تنگ ہیں مگر حکمرانوں کے منہ سے ٹیکس ٹیکس کی تسبیح چل رہی ہے اپوزیشن بھی عوام کی بات نہیں کر رہی بلکہ سارا زور اقتدار واپس لینے پر ہے۔
اگر آپ لوٹ کھسوٹ کا نام جمہوریت رکھ دیں تو پھر مجھے امریکہ کی طرف سے لیبیا۔افغانستان۔عراق۔یمن ۔شام میں بمباری کے ذریعے لائی گئی جمہوریت کی بھی تائید کرنی پڑے گی۔
چلو اس دفعہ شوگر ملوں کے مالکان کا کسانوں اور عوام سے رویہ دیکھ لینا اور جمہوریت کے گیت گا لینا۔ یہ گز ہے یہ میدان ہے۔ یہ بھی نوٹ کر لیں اگر شوگر ملوں پر ٹیکس لگا تو اس کا ڈبل بوجھ عوام پر پڑے گا آدھا حکومت آدھا ان کا۔ اوریہ سب کچھ جلد سامنے آ جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر