مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہار آئی تو جیسے یک بار لوٹ آئے۔۔۔عباس سیال

زمین کے نچلے کُرے (جنوبی کونے) پر اِس وقت نومبر کا وسط چل رہا ہے۔ دیواروں پر آویزاں موسمی کیلنڈر سے ماہِ ستمبر ہریالیوں کی نوید سنا کر واپس لوٹ چکا۔اکتوبر ہری پتیوں کی پوٹلی نومبر کے ہاتھوں تھما کر رخصت کیا ہوا کہ نومبر کسی پھرتیلے کینگرو کی طرح خوشی سے چھلاوے بھرتا آسٹریلیا کے باغیچوں کو مہکاتا پھررہا ہے۔ کیلنڈر سے اُترتے چڑھتے مہینوں کو بھلا کس نے دیکھا ہے؟


آسٹریلیا میں فٹ پاتھوں اور پارکوں پر کاسنی رنگی پھولوں کی گٹھڑیاں شانوں پر لٹکائے جیکر انڈہ کے درختوں پر نظر پڑتے ہی گماں ہوتاہے جیسے سرخی پاؤڈر، کاجل لگائے،سولہ سنگھار کئے، ناز نخروں والی کوئی”جوبناں ترُٹی زال“ کاسنی رنگ کے ملمی بستر پر محوِ خواب ہو۔

آج سولہ نومبرکا چمکتا دمکتا دن تھا، جنگِ عظیم اول، دوئم اور ویت نام کی جنگ میں مرنے والے آسٹریلوی فوجیوں کی یاد میں ہوم بش کے ڈیوی سکوئیر نامی پارک کے سامنے سے گزرتے سمے جیکر انڈہ درختوں کی کشش کسی مقناطیس کی طرح مجھے بھی پارک کے اندر لے گئی، ہر سُو جیکرانڈہ کے سہاگنی درخت سب کی توجہ کا مرکز ِ خاص تھے بلکہ چینی فوٹو گرافروں کا ایک گروپ فطرت کی رنگینیوں کو کیمر ے کی آنکھ میں قید کرنے میں مگن تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جیکر انڈہ آسٹریلیا کا مقامی درخت نہیں بلکہ اس سرزمینِ گمشدہ کو کھوجنے والے چٹی چمڑی والے گوروں نے انیسویں صدی کے وسطی کولونیل عہد میں لاطینی امریکہ(برازیل، ارجنٹینا) سے اس خوشنما درخت کے بیجوں کو یہاں لا کر پہلی بار بویا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے آسٹریلین مٹی جیکرانڈہ درختوں کو ایسی راس آئی کہ اکتوبر کا مہینہ ختم ہوتے ہی اس کے ہرے پتے کاسنی رنگوں کا پیراہن پہن کر فیض احمد فیض کی غزل گنگنانے لگتے ہیں …
بہار آئی تو جیسے یک بار لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے وہ خواب سارے، شباب سارے ….


اب گل و گلزار کی باتیں ہوں گی، بوٹینکل گارڈنز میں خراماں چلتے نیلی اکڑی گردنوں والے راجھستانی اور چولستانی مور جھومرڈالیں گے۔ فطرت اپنے سات رنگوں سمیت امبر سے اتر کر دھرتی کے نچلے کُرے کو چومے گی، جامنی پتوں سے لدے جیکرانڈہ درختوں کی مہندی رنگ ٹہنیاں پھر سے سہاگن ہوں گی اور اس کے ملائم پتے اپنی ٹہنیوں کو الوداعی بوسہ دیتے ہوئے زمین پر رنگوں کی برکھا بچھائیں گے اورپھر۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے دسمبر آجائے گا …

سڈنی کا دسمبر اور جنوری آتش فشاں کی طرح لاوا اُگلے گا۔ قبل ا س کے گرما رُت آن پہنچے، کیوں نہ جیکرانڈہ کی ٹہنیوں سے لدے پتوں کو زمین سے چومتا دیکھ لیاجائے، کاسنی ر نگوں کی گرتی پھوار کے نیچے تھوڑی دیر کیلئے بیٹھ کر سستا لیا جائے،”جوبناں ترُٹی“ بہار سے خوب باتیں کر لی جائیں، چولستانی موروں کے ناچ اور فطرت کے حسن سے آنکھوں کو تازہ دم کر لیا جائے۔ فطرت کے حسن و جمال کو دیکھنا اور اس کی داد دینا کائنات کے تخلیق کار کی تخلیق پر ایمان لانے کے مترادف ہی تو ہے۔

%d bloggers like this: