اسلامی جمہوریہ پاکستان تضادات اور فسادات کے تسلسل کا نام ہے۔ اس کے بننے سے لیکر اب تک ستر پچھتر سالہ تاریخ میں کوئی بھی ایسا دور نہیں گزرا جس میں بے چینی اور غیر پائیداری نہ ہو۔ یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ تنازعات اور خدشات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟
جدید ریاستوں کی عمارت چار ستون جس میں مقننہ یعنی پارلیمنٹ اور سینٹ، عدلیہ، انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کے اوپر ٹکی رہتی ہے اگر یہ چار ستون مضبوط ہونگے تو ریاست بھی پائیدار ہو گی، مگر بد قسمتی سے مملکت پاکستان میں یہ چاروں ستون بہت ہی کمزور اور جز وقتی پالیسی کے زیر تابع رہے ہیں۔
یہاں پر شروع دن سے ہی ایک ادارہ بہت ہی مضبوط، منظم اور طاقتور رہا ہے جس کی وجہ سے باقی ادارے اس کی صوابدید پر پنپتے اور چلتے رہے ہیں۔ اس ادارے نے ہمیشہ اجتماعی مفادات کی بجائے اپنے ادارے کے مفادات کو مقدم رکھا اس ادارے کو سیاسی پارٹیوں نے جب جب اپنے تئیں ٹکر دینے کی کوششیں کیں تو وہ اپنے غیر جمہوری ڈھانچے کی وجہ سے اکثر ناکام ہوئیں کیونکہ سیاسی پارٹیوں میں مرکزیت پسند رجحان کی وجہ سے اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اس منظم ادارے سے لمبی لڑائی لڑ سکتیں۔
جب بھی سیاسی پارٹیوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کی تو اس ادارے نے اپنی "محبوبہ”سے مل کر ان مرکزیت پسند سیاسی پارٹیوں کی پاپولر لیڈرشپ پر جھوٹے سچے مقدمات قائم کر کے انہیں پابند سلاسل کر دیا، پھانسی پر چڑھوا دیا یا پھر سیکورٹی رسک کہہ کر اپنی ہی بغل بچہ عسکریت پسند تنظیموں سے مروا دیا۔
پاپولر لیڈرشپ کے بحران کی وجہ سے اس ادارے نے اپنے ہر غیر قانونی و غیر آئینی اقدام کو ” ریاست بچاؤ” نعرے کے خوشنما غلاف میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کیا جس کا نتیجہ سماجی ٹوٹ پھوٹ اور سیاسی بے چینی کی شکل میں یہاں پر بسے ہوئے لوگوں کو بھگتنا پڑا اور یقینا آئندہ بھی بھگتنا پڑے گا۔
ریاست کھوکھلی ہو گئی مگر یہ ادارہ آج بھی اپنی پوزیشن اور بیانئے سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے یہاں کے مقامی باشندوں اور مزدور پیشہ لوگوں کیلئے یہ بیانیہ زہر قاتل ہے کیونکہ یہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو طاقت کا محور و مرکز سمجھتا ہے اور کسی قسم کی جوابدہی اور سزا و جزا سے ماورا ہو کر سوچتا ہے۔
ریاست کے اندر ریاست کو جو رونا رویا جاتا ہے وہ پنڈی سرکار کی شکل میں جب سے پاکستان بنا ہے تب سے قائم و دائم ہے اور اب تو وہ ایک ایسا دیو بن چکا ہے جو قدرتی وسائل سے لیکر ریاستی ملکیت تک اور ہر قسم کے کاروبار سے لیکر سماجیات ، تہذیب و تمدن اور فکر و ارتقا کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔
اس ادارے نے ” خوف زدہ کرو ” کی پالیسی کے تحت لوگوں کی آواز تک چھین لی ہے۔یہ جب چاہیں میڈیا کی زبانیں گنگ کروا دیتا ہے اور جب چاہتا ہے عوامی حقوق اور جوابدہی کی بات کرنے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چپ کروا دیتا ہے۔
اب یہاں پر ایک اور سادہ سا سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر ایسی ریاست کا مسقبل کیا ہو گا؟ کیا پچیس کروڑ لوگوں کی خواہشوں اور زندگیوں کے دائرے ہر گزرتے دن کے ساتھ سکڑتے چلے جائیں گے اس سادہ مگر تلخ سوال کا جواب بہت ہی سفاک اور خوفناک ہے۔
زندگی کی اس تلخی کو محب الوطنی کے دشت میں گھم گھما کر گزار دو ” انہیں ” کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے!!!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ