ایک شام دفتر میں تھا کہ انجانے نمبر سے کال آئی۔ میں نو بجے کے بلیٹنز کی ہیڈلائنز لکھ رہا تھا۔ فون سننا نہیں چاہتا تھا لیکن کال وصول کرلی۔ مصروف بھی تھا اور کسی اجنبی سے گفتگو کرنے میں دلچسپی بھی نہیں تھی لیکن ایسی محبت بھری آواز آئی اور کالر نے ایسی میٹھی تعریفیں شروع کیں کہ میں خاموشی سے سنتا رہا۔ تعریف کسے اچھی نہیں لگتی۔ خاص طور پر جب آپ میں کوئی گن نہ ہوں لیکن لوگ مبالغہ کرتے چلے جائیں۔
میں نے ان کا نام پوچھا۔ انھوں نے بتایا۔ مجھ بدعقل شخص نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں آپ کو نہیں جانتا۔ انھوں نے کہا کہ اپنا پتا بتا دیجیے، اپنا تعارف آپ کو بھیجتا ہوں۔ دو دن بعد ایک موٹی سی کتاب گھر پہنچ گئی۔
میں نے کتاب کے جواب میں اپنی کتابیں بھیجیں۔ انھوں نے فیس بک پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا:
۔
مبشر علی زیدی پر سو الفاظ میں الہامی کہانی اترتی ہے ۔ اور کمال اترتی ہے ۔ وہ اسے کاغذ پر سنوارتا ہے ۔ معانی کھلتے ہیں اور مفاہیم بولتے ہیں ۔ اس کی کہانی اب کتاب میں نہیں، قاری کی جیب میں موجود موبائل ، لیپ ٹاپ، ٹیب، اخبار، ہر جگہ ملتی ہے ۔ محفلوں میں سنائی جاتی ہے ۔ قاری سر دھنتا ہے ۔ داد دیتا ہے ۔ میں بھی سارے کام چھوڑ کر پہلے اس کی کہانی سنتا ہوں ۔
حیران ہوں کہ اس نے اپنی کتب کے نام نمک پارے، شکر پارےکیوں تجویز کیے۔ میں ذاتی طور پر ان عنوانات سے متفق نہیں ہوں ۔ یہ تمام دانش پارے، فن پارے، فکر پارے ہیں۔
۔
میں سوچتا رہا کہ یہ کیسے بھلے آدمی ہیں۔ کسی غرض کے بغیر اتنی تعریف کررہے ہیں۔ فیس بک پر انھیں تلاش کیا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان ہندوستان سے کتابیں خود ان کا پتا ڈھونڈتی ہوئی آتی ہیں۔ غالباً شہر سے دور حویلی میں کتب خانہ سجایا ہوا تھا۔ جو نیا رسالہ اور نئی کتاب ان تک پہنچتی، وہ ان کے سرورق اور کبھی کبھی اندر کے صفحات بھی ہم جیسوں کی خاطر فیس بک پر لگادیتے تھے۔
۔
میری کتاب سو لفظوں کی کہانی شائع ہوئی تو لاہور کی یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی نے اس کے لیے تقریب کا اہتمام کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ چند نام تجویز کردیں، ہم انھیں بطور مہمان مدعو کریں گے تاکہ وہ آپ کی کتاب پر گفتگو کریں۔ میں نے سوچا کہ بھلا کون میری کتاب کی تعریف کرے گا۔
پھر ایک نام یاد آیا۔ انھیں فون کیا۔ وہ ضلع میانوالی میں رہتے تھے۔ انھوں نے بہت سی دعائیں دیں، بہت سی تعریفیں کیں لیکن لاہور آنے سے معذرت کرلی۔ مجھے یاد نہیں کہ کیا مسئلہ بتایا تھا۔ کاش وہ آتے تو یادگار ملاقات ہوتی۔ میں کبھی میانوالی نہیں جاسکا۔ وہ تعارف ہونے کے بعد کبھی کراچی نہیں آئے۔ ملاقات کی حسرت رہ گئی۔
ان کا نام محمد حامد سراج تھا۔ پاکستان کے مشہور افسانہ نگار۔ ان کا طویل خاکہ میا بہت سے لوگوں نے پڑھا ہے جو کتابی صورت میں بھی شائع ہوا ہے۔ افسانوں کے کئی مجموعے الگ چھپے۔ انھوں نے عالمی افسانے، ادیبوں، بادشاہوں اور دانشوروں کی آپ بیتیوں کی چند کتابیں بھی مرتب کیں۔
۔
آج بک کارنر جہلم کے منتظم گگن شاہد بھائی سے اطلاع ملی کہ حامد سراج صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ دل غم میں ڈوب گیا۔
۔
کیسی خوب صورت شخصیت تھے وہ۔ کتابوں سے کیسا عشق کیا۔ تصویروں سے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کتنا عمدہ کتب خانہ بنایا۔ شہر سے دور قدرت کے قریب رہے۔ شاید اسی لیے بے غرض و بے ریا آدمی تھے۔
مجھے اگر دوسری زندگی ملی اور مرضی سے جینے کا موقع ملا تو محمد حامد سراج بننا چاہوں گا۔
آج بک کارنر جہلم کے منتظم گگن شاہد بھائی سے اطلاع ملی کہ حامد سراج صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ دل غم میں ڈوب گیا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ