نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اعزاز سید

مولانا فضل الرحمان کا دھرنا کب تک کارگر ہے؟اعزاز سید

بظاہر آہنی دکھنے والے مولانا فضل الرحمٰن کو معلوم ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی کی سیاست کا سب سے بڑا دائو لگا کر اسلام آباد پہنچے ہیں۔ آ

جب سے مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا کا دھرنا جاری ہے، حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ سب کے تضادات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔

حکومت کو سب سے زیادہ نقصان ہر بات پر ردعمل فراہم کرتے ترجمانوں نے پہنچایا ہے جبکہ مولانا کی ’استعفیٰ لے کر ہی جائوں گا‘ والی ضد انہیں عملی طور پر ایک بند گلی میں لے گئی ہے لیکن اس سب کے باوجود مولانا نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔

بظاہر آہنی دکھنے والے مولانا فضل الرحمٰن کو معلوم ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی کی سیاست کا سب سے بڑا دائو لگا کر اسلام آباد پہنچے ہیں۔ آزادی مارچ اور دھرنے سے قبل وہ محض جوڑ توڑ کے ماہر ایک ایسے شاطر سیاستدان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے جو ہر وقت صرف اقتدار کی جستجو میں ہی رہتا مگر اب ملکی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کے تمام طبقے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہ عوامی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔

انہوں نے عملی طور پر انتخابی سیاست کے سب سے بڑے مرکز پنجاب میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت اسلامی کو پیچھا چھوڑ دیا ہے، اگر وہ اس احتجاج سے کچھ حاصل کر پائے تو آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت پنجاب میں بھی جلوہ گر ہونے کے لیے تیار ہوگی۔

جو مقبولیت مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت کو آج ملی ہے وہ ان کی ساری زندگی کی سیاست پر بھاری ہے مگر جیسا کہ اوپر کہا کہ وہ بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں لہٰذا اب ان کے پاس تین ہی آپشنز ہیں۔

اول، مولانا فضل الرحمٰن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں اتنی خلیج پیدا کر دیں کہ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑ جائے۔ ایسا عمل مولانا کی مکمل فتح اور عمران خان کی مکمل شکست ہوگا لیکن عملی طور پر یہ فوری ممکن نہیں۔ کم سے کم ممکنات میں یہ ہے کہ مولانا کوئی ایسا معاہدہ کر لیں کہ جو لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہو کہ انہوں نے واقعی اس احتجاج سے کچھ حاصل کیا ہے۔

ان کے ہاتھ میں صرف کوشش ہے، نتائج بہرحال ان کی دسترس سےبہت دور کسی اور کے مرہونِ منت ہیں۔دوم، مولانا فضل الرحمٰن کسی مقصد کے حصول کے بغیر اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیں اور پورے ملک کے لاک ڈائون کے لیے یہ کہتے ہوئے اگلی تاریخ دے دیں کہ موجودہ حکومت کے خلاف ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ ایسی صورت میں واپسی پر وہ اپنی سیاست کا لاشہ ہی کندھے پر لے کر جائیں گے۔

سوم، تیسرا اور آخری راستہ ٹکرائو کا ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت مولانا کے کنٹینر پر پشتون قوم پر مظالم اور ان کے لیے انصاف کی آواز اٹھانے والوں کو بھی دعوت دی جا سکتی ہے۔ ایسے میں دھرنے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد دگنی ہو جائے گی اور مولانا کو نئی طاقت بھی ملے گی۔

ان کے پاس یہ راستہ ہوگا کہ وہ ملک بھر میں لاک ڈائون کا اعلان کرتے ہوئے طاقت کے شراکت دار کمزور ترین فرد پر تند و تیز تقریر کا حملہ کریں اور اپنے کارکنوں کو لیکر آگے بڑھیں، لاٹھی کھائیں اور گرفتار ہو جائیں۔ اس اقدام سے اقتدار کے شراکت داروں میں سے کسی ایک کے پائوں سے زمین کھسکنے کے امکان کے ساتھ مولانا کا پابندِ سلاسل ہونا بھی بعید از قیاس نہیں۔ ایسے میں پیدا ہونے والا سیاسی تنازع حکومت کو تو کمزور کرے گا ہی لیکن مولانا کی گرفتاری سے ان کی عزت و سیاست کو دوام مل جائے گا۔

سیاستدان کا رہنما بننا صرف اسی صورت ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے اصولوں کے لیے خوف کے پل سے گزرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ خوف کو قابو میں لانے کی جرات ہونی چاہئے۔ مولانا کے تین آپشنز تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ایک ایسی صورت کے لیے ماحول بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے جس میں اپوزیشن، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سب کے لیے win winیا جیت کا اعلان ہو۔

آزادی مارچ کی طرف سے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ایک فورم کی تشکیل کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اگر اس فورم پر طاقت کے تمام شراکت دار ایک ہی جگہ ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھ کر آئین پر مکمل عملدرآمد کا اعادہ کر لیں اور اس بات کا اعلان کر دیں کہ تمام جماعتیں اور ادارے آئین میں درج دائرہ کار کے اندر رہ کر ہی اپنا کردار ادا کریں گے تو یہ سب سے بڑی قومی کامیابی ہوگی۔ اس وعدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے متفقہ طور پر غیر جانبدار افراد کی ایک قومی کمیٹی بھی تشکیل دی جا سکتی ہے۔

ایسا کرنے کے لیے مرکزی کردار اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تکبر اور اَنا، طاقت و اختیار کی دو ناجائز اولادیں ہیں جن سے اکثر حکمران چھٹکارا نہیں پا سکتے اور یہی دونوں ان کے اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکلنے کی وجہ بن جاتی ہیں۔ اقتدار میں آکر جو حکمران ان پر قابو پا جاتا ہے وہ امر ہو جاتا ہے مگر تاریخ میں بھی اس آپشن پر عملدرآمد کرنے والے حکمران کم ہی پائے جاتے ہیں۔

About The Author