چھ سال پہلے میری وابستگی ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹنگ ٹیم میں تھی۔ سردیوں کا موسم تھا۔ اکثر اوقات رات آٹھ نو آفس میں ہی بج جاتے تھے۔ صحافی اکثر دوستوں کے ساتھ ڈھابے پہ بیٹھ کے چائے کے ساتھ ساتھ گپ شپ کارنر لگانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ تو کئی سینئر صحافیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔
ایک شام ابھی آفس میں ہی تھا کہ ہمارے ایک بہت پیارے اور مہربان دوست کی کال آئی ، سانس پھولی تھی، بس جلدی آنے کا کہا۔ میں ان کی بتائی ہوئی جگہ پہ پہنچ گیا تو پتہ چلا ان کی موٹر سائیکل کسی گاڑی سے ہلکی سے ٹکر ہوئی تھی ، گاڑی پہ ہلکی سے خراش دیکھی، اس گاڑی میں 5نوجوان لڑکے، جو کسی یونیورسٹی کو طلبہ تھے، انہوں نے ان کو روک کے موٹر سائیکل کی چابی بھی نکال لی تھی اور ان کا پریس کارڈ بھی لے لیا تھا۔
خیر جب ان سے بات کی تو پتہ چلا ان میں 3لڑکے سرائیکی تھے، میں نے ان سے پہلے ہی معذرت کی اور کہا کہ بھائی معاملہ کو رفع دفع کریں۔ آپ کی گاڑی کا نقصان تو ہوا نہیں اور ان کو بھی اللہ نے بچا لیا ۔ یہ آپ سے عمر میں بھی زیادہ ہیں اور صحافی بھی ہیں۔ ان میں سے ایک بولا کہ نا سائیں ہن گال بہو اتاں تک ویسی(یعنی اب بات اوپر تک جائے گی) ان سے سرائیکی میں بات شروع کی اور کہا کہ اچھا بتائیں اب اس بات کا کیا حل ہے۔ کہنے لگے بیس ہزار دیں اور جان چھڑوا لیں۔
ان کو بتایا کہ بھائی یہ وہ والے صحافی نہیں جو راتوں رات سونے کا انڈہ دینےوالی مرغی رکھتے ہوں۔ جو خود موٹر سائیکل پہ آتے ہیں وہ تمہیں اتنی رقم کہاں سے دیں اور اتنی رقم کا تقاضہ غیر منصفانہ ہے۔ خیر جتنی میں نے منت کی وہ اتنا ہی چوڑے ہوتے گئے ، بات یہاں تک پہنچی کہ ان میں سے ایک لڑکے نے انہیں دھکا دیتے ہوئے تھپڑ تک مار دیا اور کہا کہ بیس ہزار دیں اور کارڈ اور چابی لیں۔
مجھے کرائم رپورٹنگ میں سال سے زیادہ گزر چکا تھا،تو ان معاملات کی اونچ نیچ سے واقفیت تھی۔ میں نے اپنے صحافی دوست کو ایک سائیڈ پہ بلایا اور کہا کہ اب برائے مہربانی اب میں جو کروں آپ نے ساتھ دینا ہے۔ مجھے یاد ہے سفید رنگ کی تھوڑی ضعیف شرٹ تھی ان کی ، سامنے سے ہاتھ کے جھٹکا سے زور سے کھینچی تو پھٹ گئی۔ ساتھ شیشے کی ایک بوتل پڑی تھی،زمین پہ مار کے توڑی،شیشے کی دھار سے سر میں ہلکا سا کٹ لگایا، محترم میں خون ویسے بھی زیادہ تھا بہہ کہ ماتھے کو سرخ کرتے ہوئے شرٹ تک آن پہنچا۔
اب کی بار بنا دیر کئے 15پہ کال کی۔ ان کی تصویر بنا کے فورا صحافتی تنظیموں کے گروپس میں شیئر کی۔ پانچ منٹ میں پولیس اور صحافی دوست وہاں پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ پولیس کو لڑکے دیکھائے تو فورا گرفتار کر لیا گیا۔ صحافیوں کے احتجاج سے ایس ایس پی آپریشن بھی پہنچے۔ صحافی پہ حملے کا مقدمہ درج ہوا۔ اگلے روز عدالت سے ریمانڈ بھی ہو گیا۔
ان کے خاندان والے بھی پہنچ چکے تھے، وکیل کئے مگر ضمانت نہ ہو سکی، اڈیالہ جیل میں منتقل ہو چکے تھے۔ ان کی فیملیز مسلسل ہم سے رابطے میں تھی اور اب ظاہر ہے معاملہ ہمارے ہاتھ میں بھی نہیں تھا ، اور ہم نے ان کو معاف نہ کرنے کا عزم کر رکھا تھا تاکہ ان کے اندر جو بدمعاشی کا غرور تھا وہ ختم ہو اور مستقبل میں کسی شریف کے ساتھ بیہودہ حرکت نہ کریں۔
خیر وہ جو سرائیکی تھے انہوں نے وہاں کے ایک ایم این اے کے ذریعے صلح کا پیغام بھیجا۔ ایم این اے نے پارلیمنٹ لاجز میں بلایا تو میں اس دوست کو ساتھ لے کر وہاں گیا۔ سب نے درخواست کی اور سرائیکی میں ہی کہنے لگے سائیں تساں تاں ساڈے اپنڑے ہو(آپ تو ہمارے اپنے ہیں) میں نے کہا کہ یہی الفاظ میں نے ان لڑکوں سے کہے تھے مگر ان پہ کوئی اثر نہیں ہوا تھا ، خیر میں نے ان سے کہا کہ معاملہ 5لاکھ روپے اور سب کے سامنے ان سے معافی مانگنے کی صورت میں رفع دفع ہو سکتا ہے۔
بلآخر مقررہ دن پر پاس میں وہ دوست اور چند سینئر صحافی عہدیداران اسی ایم این اے کے پاس گئے ، جہاں ان لڑکوں کے فیملی ممبران پیسے لیکر آئے ہوئے تھے۔ اور وہ خود معافی کے طلبگار تھے۔ خیر دوست کا معاملہ اب میں ہی دیکھ رہا تھا تو ان سے کہا کہ یہ پیسے ہمیں نہیں چاہئیں کہے اس لئے تھے تاکہ آپ اپنی اولاد کو اطاعت ،عزت اور درگزر سکھا سکیں۔ ہم نے ان کو معاف کیا ، معافی نامہ عدالت میں جمع کروا کے ان کی ضمانتیں ہوئیں۔اور وہ لڑکے ہاتھ جوڑے معافی مانگ رہے تھے۔ہم نے ان کو گلے لگایا۔
اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمیں اسلام نے ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کرنے کا درس دیا ہے اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ کسی کی عزت شان میں کمی ہوجاتی ہے بلکیہ یہ اسلئے ہے کہ اس سے محبت رواداری کا درس ملتا ہے۔ اور ہم اپنے معاملات کو سمیٹ کے مختصر کر لیتے ہیں۔ ہم اپنی چھوٹی سی انا اور جذبات کی وجہ سے کئی ایسے معاملات اور مسائل اپنے سر پر سوار کر لیتے ہیں جن کی کوئی وجہ ہی نہیں ہوتی۔ اس طرح کے کئی معاشرتی مسائل لڑائیاں جھگڑے بس عفوودرگزر کی بنیاد پر نہ صرف ختم ہو جاتے بلکہ ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے بے پناہ اجر بھی حاصل کرتے۔اللہ کریم ہمیں ایک دوسرے کی غلطیوں کو برداشت کرتے ہوئے درگزر کرنے کے توفیق عطا فرمائیں۔
تعارف:مظہر ملک گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت اور تدریس سے منسلک ہیں۔اپنی صحافی ذمہ داریوں کے تحت سیاست اور معاشرتی مسائل پہ گہری نظر رکھتے ہیں
Twitter and Facebook: @mazharhoceyn
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ