نئی دہلی: بھارت کی عدالت عظمیٰ بابری مسجد کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ آج سنا دیا گیا
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت 16 اکتوبر کو مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ آج اس طویل تنازع کا فیصلہ سنایا جا رہا ہے اور جسٹس نذیر اس بینچ میں واحد مسلمان جج ہیں۔
بابری مسجد کا تاریخی فیصلہ
پانچوں ججز نے شعیہ بورڈ کی درخواست متفقہ طور پر خارج کر دی ہے۔ شیعہ بورڈ کی درخواست 1945 کے فیصلے پر دائر کی گئی تھی۔
مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق فیصلہ آنے سے سے قبل ایودھیا اور پورے ملک میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
ایودھیا میں دفعہ 144 نافذ کرکے متنازع مقام سمیت اہم عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
ہندو اور مسلم تنظیموں نے سب سے عدالتی فیصلے کا احترام کرنے کی اپیل کی ہے، پانچوں ججوں کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا اور 8 وزر اعلیٰ نے عوام سے فیصلے کے بعد امن قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔
بابری مسجد کیس کیا ہے
یاد رہے کہ چھ دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور ہزارو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
بابری مسجد کو شہید کیے جانے کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔
خیال رہے کہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ بابری مسجد کی 2.77 ایکڑ زمین کو تینوں فریقین سنی وفاق بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے درمیان تقسیم کی جائے۔
دونوں فریقین نے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے تنازعہ کے حل کے لیے 3 رکنی ثالثی پینل بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج فقیر محمد ابراہیم خلیف اللہ کی سربراہی میں قائم کیا تھا جو کوئی بھی حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔
ثالثی پینل کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان جماعتیں تنازع کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔
سپریم کورٹ نے 6 اگست 2019 سے فریقین کی 14 اپیلوں پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی اور 16 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات
نئی دہلی:(ساؤتھ ایشین وائر):
آج صبح ساڑھے دس بجے ستر برسوں سے زیر التوا بابری مسجد رام جنم بھومی اراضی تنازع پر بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ ججز پر مشتمل بنچ اپنا فیصلہ سنایا۔
تاریخی فیصلے میں پانچ ججز کے بنچ نے کہا: سنہ 1949 میں مورتیاں رکھی گئیں۔۔ سی جے آئی
1949 میں دو مورتیاں رکھی گئیںنرموہی اکھاڑہ دعوی خارج،
دعوی قانونی حدود سے باہر
نرموہی اکھاڑہ کی قانونی عرضداشت ناقابل تسلیم۔
دو میں سے ایک ہندو فریق کا دعوی خارج
بابری مسجدخالی زمین پر نہیں تعمیر ہوئی ۔۔سپریم کورٹ
رپورٹ میں بارہویں صدی کے مندر ہونے کا ذکر ہے۔
اے ایس آئی کی رپورٹ میں مندر کی بات صاف نہیں کہی گئی۔
زمین کا فیصلہ قانونی بنیاد پر ہوگاعقیدے کی بنیاد پر حق ملکیت طے نہیں ہوگی
بابر کے سپہ سالار میر باقر نے بابری مسجد بنوائی
مندر گرا کر مسجد بنانے کا ثبوت نہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور