اردو میں شاعروں کی کوئی کمی نہیں، ایسے حالات میں کسی ایسے شاعر کا اپنا الگ مقام بنا لینا حیران کن ہے جس کا پہلا شعری مجموعہ ان کی زندگی کے 60ویں برس سے پہلے شائع نہیں ہو سکا۔
جون ایلیا کی کل چھ کتابیں ہیں لیکن ان میں سے پانچ ان کی وفات کےبعد شائع ہوئیں۔ان کو دار فانی سے کوچ کیے سترہ برس بیت چکےہیں۔
جون کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ عشق و محبت کے موضوعات کو اردو غزل میں دوبارہ اور منفرد آہنگ کے ساتھ لے آئے۔
غزل کا روایتی مطلب بے شک ’عورتوں سے باتیں کرنا‘ ہو، لیکن عالمی تحاریک، ترقی پسندی، جدیدیت، وجودیت اور کئی طرح کے ازموں کے زیرِ اثر جون ایلیا کی نسل کے بیشتر شاعروں کے ہاں ذات و کائنات کے دوسرے مسائل حاوی ہو گئے۔
جون ایلیا چودہ دسمبرانیس سواکہتر میں بھارتی شہر امروہہ کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کے بھائی رئیس امروہوی بھی نمایاں شاعر تھے اور انھوں نے جنگ اخبار میں روزانہ قطعہ لکھ کر شہرت حاصل کی۔
جون کے ایک اور بھائی سید محمد تقی تھے جو نامور صحافی ہو گزرے ہیں۔ ۔اس کے علاوہ جون کے بھانجے صادقین تھے۔
جو ممتاز مصور اور خطاط ہونے کے ساتھ رباعی کے عمدہ شاعر بھی تھے۔
جون ایلیا کو اقدار شکن، نراجی اور باغی شاعر کہا جاتا ہے۔ان کا حلیہ اور زندگی سے لاابالی رویے بھی اس کی غمازی ہوتی تھی۔
روایتی اردو شاعری کی زمین پر سانسیں لیتے ہوئے بھی جون ایلیا ہمیشہ مثالی زندگی کے متلاشی رہے۔ لیکن اصل زندگی میں اخلاقیات کہاں دیکھنے کو ملتے ہیں، اس میں تو مکاری اور نمائش کا عنصر بھرا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں بہت ناراض اور جھنجھلائے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ جب یہ ناراضگی اور جھنجھلاہٹ ان کی شاعری کا حصہ بنتی ہے تو وہ کلاسیکی عشقیہ شاعری نہ ہو کر زمین پر سانس لیتے ہوئے مرد و عورت کی محبت و نفرت کی شاعری بن جاتی ہے۔
اس طرح کی شاعری جون ایلیا کے یہاں خوب ملتی ہیں اور ان کی اصل پہچان بھی یہی بن گئی ہیں، مثلاً:
دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو
اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو
—
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا؟
جون ایلیا کی شاعری کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے محبوب سے براہ راست مخاطب ہونا پسند کرتے تھے۔
انھوں نے دوسرے شاعروں کی طرح بادلوں، ہواؤں اور پھول و خوشبو کو ذریعہ خطابت بنانے سے پرہیز کیا۔
تلخ حالات ہوں اور اپنی طبیعت و احساس کا اظہار کرنا ہو ، تو انھوں نے اپنے محبوب کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھ کر بات کی اور وہ بھی بالکل مختلف انداز میں۔ چند مثالیں دیکھیے:
بن تمھارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمھاری ہے
—
عہد رفاقت ٹھیک ہے لیکن، مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم تو میرے ساتھ رہو گی، میں تنہا رہ جاؤں گا
—
بہت دل کشادہ کر لیا کیا
زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا
تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی
تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا
اپنی زندگی میں ہی بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکے جون ایلیا کو ان کی زندگی کے بعد زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس میں ان کے خاص دوست خالد احمد انصاری کا اہم مقام ہے کیونکہ 8 نومبر 2002 میں جب جون کا انتقال ہوا تھا اس وقت ان کا محض ایک شعری مجموعہ یعنی ’شاید‘ ہی منظر عام پر آیا تھا۔
بعد ازاں ’یعنی‘ 2003 میں اشاعت پذیر ہوا جس کی ترتیب جون ایلیا نے خود کی تھی لیکن شائع نہیں کرا پائے تھے۔ اس کے بعد کئی شعری مجموعے خالد احمد انصاری کی کوششوں سے منظر عام پر آئے اور جون ایلیا پوری دنیا میں چھا گئے۔
مشاعروں میں شرکت کرنے کی وجہ سے شروع میں لوگ انھیں صرف غزلوں کا شاعر تصور کرتے تھے لیکن وہ نظموں اور قطعات کے شاعر بھی ہیں، اس کا اندازہ لوگوں کو ان کے شعری مجموعوں کی اشاعت کے بعد ہوا۔
ان کا ایک قطعہ جو ان کی الگ طرز شاعری کی بہترین مثال پیش کرتا ہے، آپ بھی دیکھیں:
شرم، دہشت، جھجک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتی
آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ